پاکستان کے معاشرے میں کہیں الہامی طور پر طے ہوا کہ کردار کا لفظی مطلب عورت کا کردار ہے ؟ غیرت کا لفظی مطلب عورت کا رہن سہن ہے ، بے حیائی سے مراد عورت کا لباس ہے۔ گھریلو تشدد کی وجہ عورت کا کردار ہے ۔ ہراسگی کی وجہ عورت کا دعوت دیتا لباس ہے۔ ، گالی سے مراد عورت کے ساتھ جڑے رشتے ہیں۔ بد چلن سے مراد عورت کا چال چلن ہے ۔ عورت سگریٹ  پیے تو اس کا کردار خراب مرد  سگریٹ پئے تو اس کے پھیپھڑے خراب ۔۔۔ ان سابقوں اور لاحقوں کا خالق کون ہے کیا یہ ہر صنف کے لئے ایک جیسا میعار نہیں طے کرتے ؟
غداری کے الزامات ہمیشہ سے پاکستان میں ان لوگوں پر لگتے رہے ہیں جنہوں نے ریاست کی متعصبانہ اور منافقانہ پالیسیوں پر تنقید کرنے کی کوشش کی۔ جب تک ناقد ذیادہ تر مرد حضرات رہے تو وہ صرف غدار قرار پاۓ۔ قومی اظہار راۓ کے فورمز پرخواتین کی شمولیت کے بعد القابات میں بدکردار کا لاحقہ لگا دیا گیا ۔ یہ سوال کافی سنجیدہ اور دلچسپ ہے کہ ہر وہ عورت جو آپ سے مختلف راۓ رکھتی ہے یا آپ سے اختلاف کرتی ہے وہ سب سے پہلے بدکردار کیوں قرار دی جاتی ہے ؟
جب اخبار پڑھنے کا آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ مرد کسی عورت کو نہیں بھگا لے جاتا بلکہ یہ تنہا عورت کی کار ستانی ہوتی ہے کہ وہ کسی کو بھی بہکا کر لے جاۓ۔ کیا دونوں برابر کے شریک جرم نہیں ہیں اس سوال کو اٹھاۓ جانے پر اکثر لوگ بے رنگ آنکھوں سے میرا منہ تکتے تھے۔ پھر عملی زندگی میں مختلف طبقات اور فکر والوں سے واسطہ پڑا تو معلوم ہوا کہ عورت اگر گھریلو تشدد کا شکار ہے تو اس کی وجہ بھی عورت کا کردار ہے۔ وہ صابر ہو تو کیا مجال کہ کبھی ایسے تجربے سے گزرے۔ اپنے علم اور عقل کے مطابق بہت تحقیق کرنے پر بھی معلوم نہ ہو سکا کہ کہاں اور کس کتاب میں صابر ہونا صرف عورتوں کے لئے طے پایا ۔ قرآن مجید میں بھی صنف کی کوئی تخصیص نہیں تھی کہ اے عورتو صرف تم کو ہی صبر کرنا ہے ۔ تشدد کے بارے میں بھی ہمارا میعار صنف کے حساب سے الگ الگ طے ہے۔ جو ایک الگ بحث ہے پھر کبھی اس پر بات کریں گے، پھر ریپ کیسز رپورٹ ہوۓ تو بحث اس سمت میں رہی کہ مختاراں مائی کو ایک جھوٹے پروپیگنڈے میں استعمال کیا جا رہا ہے ۔سب سے ذیادہ کوشش یہ ثابت کرنے کی کی گئی کہ ذیادتی کا الزام سرے سے ہے ہی جھوٹا ۔  جنہوں نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا ان کے کردار پر کسی نے بات نہیں کی بلکہ وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جو اس ایشو پر بڑھ چڑھ کر بول رہی تھیں وہ بھی بدکردار اور ملک دشمن قرار پائیں اور مختاراں مائی بھی۔ جی کھول کر انہیں ہر سطح پر بدکردار قرار دیا گیا اور ثواب حاصل کیا گیا ۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد برسوں کی ذہنی بو سیدگی کو ایک پلیٹ فارم مل گیا ۔ جب پوری دنیا میں عورت کے استحصال کے لئے  ہراساں کرنے اور ہراساں ہونے کی وجوہات پر بات ہو رہی تھی پاکستان میں ایک بار پھر عورت کے کردار کو وہ واحد وجہ قرار دے دیا گیا جس کی بنیاد پر وہ ہراساں ہونے سے لے کر ذیادتی کا شکار تک ہو جاتی ہے ۔ بہت تحقیق کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صرف عورت کا لباس وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے اس کے خلاف جرم ہوتے ہیں۔  میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ چلیں آفس جانے والی عورت تو مجرم ہے ہی کیونکہ وہ باہر جا کر کماتی ہے گھر اور دفتر دونوں محاذوں پر لڑتی ہے مگر ہار نہیں مانتی تو اس کے رہن سہن پر الزام دینا اس معاشرے میں جائز ہے کیونکہ وہ ہارتی نہیں۔ مگر دو سال اور چھ سال کی بچی کے لباس اور رہن سہن میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ وہ درندگی کا شکار ہو جاتی ہے ؟
 کام والی ماسی جو کسی باجی کے دئیے پرانے کپڑوں پر ایک چادر اوڑھ کر اپنی مفلسی چھپاتی ہے اس کے لباس میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ اسے ذیادتی کا نشانہ بنایا جاۓ۔ اس سارے قصے میں کہیں مرد ذمہ دار نہیں۔ وہ بس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب کوئی عورت ان کو بہکاۓ اور وہ جرم کریں ۔ تو جب آپ یہ سوال سوشل میڈیا پرُ اٹھاتے ہیں تو آپ مغرب پرست اور اسلام دشمن ایجنڈے کے حامل قرار دے دیے جاتے ہیں۔ یہ تو معاشرے کے پسے ہوۓ طبقات کی عورت کی کہانی ہے ۔
اب آتے ہیں ان خواتین کے تجربات کی طرف جنہوں نے بہت بہادری سے اس معاشرے میں صنفی تفاوت سے لڑ کر اپنی محنت اور صلاحیت سے مختلف شعبوں میں اپنا مقام بنایا۔  حال ہی میں میڈیا سے وابستہ چند خواتین پر سوشل میڈیا پر کئے جانے والے حملوں میں پھر ایک بار اس معاشرے کی اسی سوچ کی عکاسی ہوئی  کہ معاملہ سیاسی ہو یا سماجی اگر عورت وہاں ہٹ کر کوئی موقف اختیار کرتی ہے تو وہ سب سے پہلے بدکرادر ہے ۔ بعد میں وہ بری صحافی بری اداکارہ اور بری رہنما ہو گی۔ بنیادی نکتہ جس پر اتفاق ہونا لازم ہے وہ یہی ہے کہ صنفی بنیاد پر جرائم کا شکار ہونے والی عورتیں بدکردار ہیں۔
میشا شفیع، عائشہ گلا لئے ، عاصمہ شیرازی، نسیم زہرہ ، غریدہ فاروقی اور مہوش حیات سب کی شہرت کو ایسے الزامات اور القابات کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا جو نہ صرف بے بنیاد تھے بلکہ خطرناک بھی ہیں۔

تنزیلہ مظہر سینئر صحافی ہیں ۔ وہ سیاست اور انسانی حقوق پر لکھتی ہیں ۔