بے جان الفاظ مگر اثر تیز دھاری تلوار

Illustration by Mehak Tahir

صنفی امتیاز پر مبنی  الفاظ، جملے ،معاشرتی رویے عورتوں کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں

 ربیعہ ارشد

مرکزی دھارے اور آزاد پیشہ ور صحافی (Freelance Journalists) خواتین کو  کام کی جگہ پر ملنے والے مختلف   جملے !!!

’’ارے! آپ کیا منہ اُٹھا کے آجاتی ہیں، ڈینٹنگ پینٹنگ کرکے آیا کریں،  ہم گھر پر بھی ایسی ہی شکلیں دیکھتے ہیں، اور آپ دُھلے منہ کیساتھ آ جاتی ہیں ‘‘

’’آپ تو دبنگ ہیں، آپ کو کس نے تنگ کرنا ہے، آپکو ہراسانی قوانین کے نمایاں جگہ آویزہ  نہ کرنے کی کیا پریشانی ہے، اپنے کام سے کام رکھا کریں ‘‘

’’او ، ہو، آپ تو رہنے دیں ناں آنٹی !!(طنزیہ انداز)، رشتوں سے متعلق القابات مثلاً خالہ ، آپا (بعض اوقات عمر کی وجہ سے نہیں ، مگر مذاق بنانے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں)

’’کسی یار کے بغیر اس فیلڈ میں زیادہ عرصہ نہیں ٹِک پاؤ گی‘‘، ’’یہاں ریفرنس کے بغیر کوئی کام نہیں دیتا اور ریفرنس صرف سینئر صحافیوں کا چلتا ہے‘‘،  ’’کسی بھی ادارے کیساتھ تین سال لازمی گزارنے چاہیے تاکہ مارکیٹ میں آپ کا نام وفادار ملازم کے طور پر جانا جائے، آئے روز نوکری بدلنے والوں کا اعتبار ختم ہوجاتا ہے اور  کوئی اسکو   نوکری نہیں  دیتا ‘‘، ’’سب لوگ تمہارے پیچھے تمہاری کردار کشی کرتے ہیں، خاص طور پر فلاں لڑکی/بندہ، ان لوگوں سے بات نہ کیا کرو ‘‘

’’آپ نے تو تنخواہ اپنے بناؤ سنگار ، جوتوں اور کپڑوں پر ہی اُجاڑ تی ہیں، نوکری چھوڑیں گھر بیٹھیں، تاکہ کسی حقدار کو یہ پیسے مل سکیں‘‘ ، ’’آپ اگر یہ سیٹ چھوڑ دیں تو کسی غریب کا گھر چل جائے گا‘‘

’’سماجی رابطہ سائٹ پر اَپ لوڈ کرنا کونسا کام ہے یہ کام ایک بٹن دبا کر ہی ہو جاتا ہے تو ہمیں آپ کی کیا ضرورت ہے‘‘،  ’’اگر آپ اپنی چونچ بند رکھیں تو ہم آپکو نوکری دے سکتے ہیں!‘‘

’’بس کرو! تم کیا چینل کی ماں بنی ہوئی ہو، اتنا کام کیا کرو، جتنے پیسے ملتے ہیں‘‘

’’لگتا نہیں تم خود اتنا اچھا  لکھتی ہو، مذاق کے علاوہ بتاؤ ، یار تمہیں اتنا اچھا لکھنا آتا ہے کیا؟‘‘

’’آپ کی شکل اور پہناوا اچھا ہے اس لئے آپ کو زیادہ تنخواہ مل رہی ہے‘‘

’’یہ لڑکی شریف نہیں ہو سکتی ، جو دیر  رات  تک آفس میں کام کررہی ہے ‘‘

’’عورتیں ، آجر یا اعلی آفسر کو  جوسہولتیں دے سکتی ہیں وہ مرد نہیں دے سکتے، اس لئے مرد اعلی عہدے اور تنخواہ میں عورت سے پیچھے ہیں‘‘ ،’’عورتیں  اپنی صنف کا بھرپور ناجائز فائدہ اُٹھاتی ہیں‘‘

’’آپ اس نوکری کی وجہ سے بیرون ملک سفر کرتی ہیں لہٰذا آپکو تنخواہ میں اضافے کی ضرورت نہیں!‘‘

’’تنخواہ کی تاخیری میں سوال پر کہا جاتا کہ ’آپ کی فیملی معاشی مددگار ہے  آپکو تنخواہ کی کیا ضرورت ؟ ‘‘

’’آپ نے تو کپڑوں پر ہی لُٹانا ہے ناں! آپ کو تنخواہ بڑھانے  کی کیا ضرورت!! ‘‘

’’میڈم تو وقت گزاری یا مشغلے کے طور پر ملازمت کرتی ہے‘‘،  ’’آپ امیر ہیں تنخواہ چھوڑ دیں تو دو تین لوگوں کا روزگار لگ جائے گا‘‘

’’یہ لڑکیوں کی فیلڈ نہیں ہے، آپکے لئے اچھی نہیں،  ابھی آغاز ہے اپنی فیلڈ بدل لیں، یہ   غلط انتخاب ہے، یہ آپکے بس کی بات نہیں، اس فیلڈ میں کچھ نہیں رکھا، آپ پچھتائیں گی، یہاں آپکی کردار کشی کی جائے گی، آپکو ذہنی مریض بنا دیں گے، آپ مردوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائیں گی‘‘

’’عورت نہیں کما سکتی، وہ اعلی مقام تک نہیں جا سکتی، عورت ناقص العقل ہے، عورت گاڑی چلا رہی ہے! بس اب تو ٹریفک جام ہی ملے گا، لڑکیوں کو گاڑی نہیں چلانا آتی، جہاں ٹریفک بلاک ہو وجہ عورت کو ٹھہرا دیں‘‘

’’رخصتی کے وقت کہا جاتا ہے ۔۔ اب تمہاری لاش ہی گھر آئے‘‘،  ’’ہائے! بیٹی ہے اللہ اسکے نصیب اچھے کرے‘‘

’’ ذاتی خوشی کا حق صرف مردوں کے پاس ہے‘‘

’’بالوں کی سفیدی کو رنگ لو، بوڑھی لگتی ہو‘‘، ’’بوڑھی ہوگئی ہے مگر میک اپ کرنا نہیں چھوڑا، بھوت لگتی ہے، اسکو اپنی موت ہی بھولی ہوئی ہے‘‘، ’’اس عمر میں اسکو کون منہ لگاتا ہوگا‘‘

ان جملوں کے علاوہ کچھ خواتین نے  کام کی جگہ پر ذہانت / اہلیت/صلاحیت ہراسانی کے حوالے سے بھی اپنے خیالات شیئر کئے۔

عمائمہ احمد،  نیشنل اخبار کیلئے کام کرتی تھی ، انکا کہناہے ، ’’ تحقیقی رپورٹ پر میری کبھی کام کرنے کیلئے حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، جواباً کہا جاتا تھا کہ اپنی تحقیق فلاح رپورٹر کیساتھ شئیر کردیں یہ اسکی بیٹ ہے،  مجھے  جنگی صحافت کیلئے درخواست تک نہیں دینے دی گئی۔‘‘ سمیرا   راجپوت  کیمطابق جب انکی شائع شدہ  خبر یا آرٹیکل مشہور ہو جاتا تو انکے ساتھی عجیب سوال کرتے ، انکے ساتھیوں کو ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ  دس برس سے میڈیا میں کام کرنے کے بعد بھی  سمیرا کو  کچھ نہیں آتا اور انہوں نے کوئی جنات ایڈیٹر رکھے ہوئے ہیں۔ ایڈیٹر ڈیلی کشمیر ایکسپریس  شمین اشرف  کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے مردوں نے عورتوں کے بارے میں خام خیالی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ عورتوں کو اپنے ہنر اور ذہانت سے پیسے کمانے کا کوئی حق نہیں، یہ سب باتیں دلبرداشتہ کر دیتیں ہیں، لیکن اللہ کامیاب سٹوری کے ذریعے پھر حوصلہ بھی بڑھا دیتا ہے ۔یوں محسوس ہوتا  ہے جیسے  مردوں کو قانونی لائسنس حاصل ہے جب بھی جو چاہے بول دیں۔ ’’لوگوں کے رویوں نے مجھے تنہا اور مضبوط کردیا، آج مجھے پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے میں مہارت حاصل ہے‘‘۔ نئے آنیوالوں سے یہی کہوں گی کہ  منفی لوگوں کی تنقید پر دھیان  دینے کی بجائے مثبت لوگوں کی بات کو پرکھو ! ہمیشہ اپنی طرف سے بہترین کرو فوکس ہو کر، انجام اچھا ہی ہوتا ہے۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک صحافی خاتون نے بتایا کہ بہت سے نئی آنیولی بچیوں کو ساتھی مرد حضرات ڈرا دیتے ہیں کہ یہ اچھی خواتین کی جاب نہیں یہاں سخت محنت کرنا پڑتی ہے جو عورت ہونے کی شناخت ختم کردے گی،  ’’مگر آج  دس سال بعد میں سوچتی ہوں کہ اس وقت  مکار خود ساختہ دانشوروں کے بہکاوے میں یا ڈر کر فیلڈ چھوڑ دیتی تو شاید کبھی نہ دیکھ پاتی کہ اس فیلڈ میں بھی خواتین کس اعلی مقام تک جا سکتی ہیں ۔  میں نے دیکھا کہ میری ساتھی خاتون اس وقت بین الاقوامی سطح پر ڈاکومنٹریز بنا رہی ہے جبکہ مکار سینئرز جو اسکے کپڑوں، بولنے کے انداز، اور خود اعتمادی پر تنقید کرتے تھے، وہ آج بھی اسی جگہ پر  بیٹھے ہیں۔ یہ سب محض باتیں ہوتی ہیں، جو دھویں کی طرح ہوا میں اُڑ جاتی ہیں،  اگر انکو اپنے اندر رکھو گے تو  اندھے ہو جاؤ گے اور وہی دیکھو گے جو دوسرے دیکھانا چاہتے ہیں۔‘‘

ابلاغی صنفی امتیاز مغربی دنیا میں  بھی پایا جاتا ہے ،  ایک انٹرویو کے دوران مشہور گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ (Taylor Swift) نے بتا یا کہ میوزک انڈسٹری میں مرد اچھا گانا لکھے تو اسکی تعریف کی جاتی ہے جبکہ خاتون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ضرور کسی دوسرے مرد سے لکھوایا ہوگا،  مرد  کوئی کام کرے تو اس نے حکمت عملی اختیار کی   مگر وہی کام  عورت کرے تو اندازے اور تہمینہ لگا کر کیا ہے ،  مرد ردعمل کا اظہار کرسکتا ہے  لیکن عورت صرف زیادہ ردعمل کرتی ہے۔

دوسری مشہور گلوکارہ میڈونا کہتی ہیں، ’’ مجھے اس لئے متنازعہ شخصیت بنایا گیا کیونکہ میں اپنے مقصد پر گونگی بہری بن کر ڈٹی رہی، میں نے مردوں کی سٹیریوٹائپس پر کان نہیں دھرے۔   اگر آپ لڑکی ہیں تو آپ کو کھیل کھیلنا پڑے گا،  یہ کھیل کیا ہے؟ اس کھیل میں آپکو خوبصورت، پیارا  ، شہوت آمیز (sexy ) دکھائی دینے کی اجازت ہے، لیکن  عقلمند انہ عمل کرنے کی یا اپنی عقل  ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ،خاتون  اپنی رائے نہیں رکھ سکتی،خواتین کئی صدیوں سے دبا کر رکھی گئی ہیں اور اب وہ اس بات پر یقین کرنے لگ گئیں ہیں کہ انہیں صرف مرد کی مددگار بننا  ہے تاکہ وہ اپنا کام کرسکے۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے ہمیں اپنی  اور دیگر خواتین کی اہمیت کو   سراہنا چاہیے، لڑکیوں!   مضبوط عورت کی تلاش کرو اور اسکی دوست بن جاؤ  ،  انکے ساتھ جڑجاؤ ، ان سے سیکھو،  ان سے متاثر ہو اور دوسری خواتین کو متاثر کرو، ایک دوسرے کیساتھ تعاون کرو، جو آپکے درمیان شک کا بیج  بونے کی کوشش  کرے ، اسکو لات مار کر زندگی سے نکال دیں ۔ ان  حوصلہ شکن عناصر اور رویوں سے میں مضبوط بنی اورانہوں نے  مجھے لڑنا سیکھایا‘‘۔   

نوجوان اداکارہ ہیری پورٹر فیم ایما واٹسن کیمطابق خواتین کو انکے 30sمیں ہی عمر کا طعنہ دینا شروع کر دیا  جاتا ہے، انکے لئے شادی اور کرئیر کی حد مقرر کر دی جاتی ہے۔انکے گھر والے، دوست اور معاشرہ انکو مفروضوں سے   پریشان کردیتے ہیں کہ’’ اگر  تیس برس کی عمر تک شوہر نہ ملا، شادی نہ ہوئی ، بچے نہ ہوئے  تو تم اپنے کرئیر کو بھی نہیں سنبھال پاؤ گی۔ ‘‘

زبان اور کوگنیٹو سائنسدان اور پروفیسر  لارا بورڈسکی (Lera Boroditsky)نے ایک عوامی فورم پر  کہا کہ الفاظ ہمارے ذہن میں ایک تصویر بناتے ہیں ، پھر اسکو ذہن ریفرنس میں رکھ لیتا ہے، اور بار بار ایک جیسے الفاظ یا جملے سُننے سے انسان اپنی اہلیت یا شخصیت کے بارے میں ویسا ہی گمان پیدا کرلیتا ہے۔

اسی حوالے سے ایک انگریزی  افسانہ نگار کی کہانی کا خلاصہ ہے کہ ایک زمانے میں تین آدمیوں کو غار میں قید کر دیا گیا اور ہر رات وہاں آگ کا آلاؤ جلا دیا جاتا تھا، اسکی وجہ سے باہر کی دنیا سے جو بھی غار جیل کے سامنے سے گزرتا اسکا سایہ دیوار پر بنتا اور وہ تین لوگ اسی کو دنیا سمجھتے۔ ایک دن جب ایک آدمی کی زنجیر ٹوٹ گئی اور وہ غار سے باہر جاتا ہے مگر اسکی آنکھیں سورج کی روشنی سے چندھیا جاتی ہیں، اور اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ پھر کچھ دیر کے بعد جب وہ قدرت کے نظارے اور جانوروں کو دیکھتا ہے تو اپنے دوستوں کو باہر کی دنیا میں آنے کا کہتا ہے مگر وہ سب اسکو کہتے ہیں کہ وہ اندھا ہو چکا ہے۔  اس مثال کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کو ایک ہی ماحول میں قید رکھا جائے تو وہ اسی ماحول کا عادی ہو جاتا ہے اور اسکے باہر کی دنیا کو غلط تصور کرتا ہے۔  

دوسری جانب ذرائع ابلاغ  اپنے نشری اور تشہیری مواد سے ایسی سوچ کی جڑیں مزید مضبوط کرتے ہیں  میڈیا، ڈرامہ، کمرشلز میں خواتین کو باورچی خانے میں ہی کام کرتا دکھایا جاتا ہے تاکہ وہ اس کردار کو افضل اور اچھا سمجھیں۔ زیادہ تر اشتہارات میں خواتین کو گھریلو کام کرتے زیادہ مطمئن دکھایا جائے گا مگر کام کرنیوالی خواتین کو تھکاوٹ اور ذہنی تناؤ کا شکار دکھایا جائیگا ، اسی طرح ڈراموں میں یا تو عورت مظلوم ہے مار کھا رہی  یا چالاک اور عیار کے کردار میں پیش کیا جاتا،  کامیاب بزنس خاتون کو بھی مردوں پر انحصار کرتے ہوئے دکھایا جاتا،  اسکی وجہ سے دیکھنے والے بھی انہی کرداروں میں عورتوں کو دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اسکے علاوہ کرداروں کی عزت نہیں کی جاتی۔

معاشرتی اقدار کے تجزیہ کاروں  کے مطابق،   والدہ  نے روک ٹوک لگائی تو اسے پیار کا نام دیدیا گیا،  والد نے بندش لگائی تو اسکو اخلاقی اقدار کا، شادی کے بعد ساس نے کہا کہ اپنی خواہشوں کو مار دو تو اسے روایت کا  نام دیدیا، سسر نے گھر کو قید خانہ بنا یا تو اسکو  دنیاوی جنت کا نام دیدیا گیا، شوہر نے اپنے خواب/کرئیر بیوی پر تھوپ دیا تو اسے وفا کا نام دیا گیا۔  جب  لڑکیاں اپنے حالات سے  خوش نہ ہوں تو انہیں انکی قسمت کا نام دیدیا جاتا ہے، جس کو وہ بدل نہیں سکتی، ایشیا ء میں عورت کی زندگی ایک شمشان گھاٹ جیسی بن کر رہ جاتی ہے۔خواتین کبھی لیڈ /رہنمائی نہیں کرسکتی ، وہ کبھی جیت نہیں سکتیں، پھر ان سب کو ثابت کرنے کیلئے عورتوں نے مردوں سے ہی رہنمائی  اور جیت کیلئے میکاویلین ٹریٹس (Machiavellian traits)  سیکھیں، تب انہیں بُری عورت کا خطاب دیا گیا۔

رعنا ملک، چئیرپرسن جینڈر اسٹڈیز ، پنجاب یونیورسٹی  کا کہنا  ہے ’’خواتین افرادی قوت میں بہت کم ہیں، ریاست کوٹہ نظام کے ذریعے ملازمت کے دروازے کھولتی ہے مگرپدرشاہی معاشرے کے دفاتر میں خواتین کے کام کرنے کیلئے میز کُرسی کی بجائے انسانی حقوق اور پیشہ وارانہ اہلیت کے لحاظ سے مواقع  پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ خواتین کو دفاتر میں حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انکو  کپڑوں، جسامت، نام، فیملی پس منظر  کے حوالے سے لیبل لگائے جاتے ہیں، جسکی وجہ سے خواتین غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں،اور ذہنی تناؤ کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کرپاتی ۔اگر دن کے آغاز میں کوئی غلط کمنٹ دیدے تو سارا دن کام پر دھیان بنانا مشکل ہوجاتا ہے اس لئے یہ بیانیہ سامنے آتا ہے کہ کام ہی نہ کیا جائے۔ مردوں کو اپنے پیچیدہ مسائل سے باہر آنا ہوگا، مرد اپنی بیٹی کو محفوظ سمجھتا  ہےلیکن گھر سے  باہر عورت کو  بیچاری کہتا ہے ۔ خواتین کو  ڈر کر نہیں  بیٹھنا چاہیے ، اگر کوئی غلط حرکت یا بات کرتا ہے تو کھلے عام اسکا اظہار کریں ،  اسکو سب کے سامنے لائیں، برداشت یا اگنور نہ کریں،اس طرح ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔  پیشہ وارانہ اور گھریلو زندگی کے علاوہ اپنی ذات کیلئے بھی وقت نکالیں، خواتین اچھی منتظم ہوتی ہیں اسلئے انکےلئے یہ  ڈسپلن   مشکل نہیں ہے۔

بشری اقبال حسین، ریڈیو براڈکاسٹر، ’محفوظ بچپن ‘ فیس بک پیج کی بانی ، نے شکوہ کیا کہ ہم خواتین بھی خواتین کی صلاحیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ’’ ایک بار میں نے ایک آگاہی تقریب میں حاضرین محفل سے انکے پسندیدہ لکھاری /صحافیوں کے بارے میں پوچھا تو بیس سے زائد حاضرین میں سے کسی ایک نے بھی خاتون صحافی کا نام نہیں لیا کیونکہ بچپن سے ہی سنتے آ رہے ہیں کہ خواتین صحافیوں کو کام نہیں آتا۔ مرد کی ترقی کے پیچھے بھی لابی یا ایجنڈہ ہوتا ہے، مگرخواتین، مردوں کیساتھ ملکر  خاتون صحافی  کا نام لیکر اسکی  کردار کُشی  شروع کر دیتی ہیں، مثلاً ’کھلا گریبان تھا‘، ’امریکی ایمبیسی میں شراب کی گلاس والی تصویر تھی‘‘، ’یہ تو فلاح سیاستدان کیساتھ تھی‘، ’سگریٹ پکڑے اسکی تصویر آئی تھی‘، ’جانے دو! یہ تو ہمارے ساتھی کارکن کیساتھ سیٹ تھی‘، اس خاتون کی ذاتی زندگی، وقت اور   فیملی لائف کی قربانی کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے‘‘

’’بطور خاتون ہمیں  ڈرامہ میں  بیوی یا عورتوں  پرلطیفے، یا برقی پیغامات (messages) میں صنف سے متعلق لطیفوں پر ہنسنا اور آگے بھیجنا بند کردینا چاہیے  تاکہ ناصرف اس بندے کو اس حرکت پر بے عزت کیا جاسکے بلکہ صنفی امتیاز اور حقارت کے  رحجان کو بھی  روکا جا سکے۔ ایک بار سینئر اینکر  پرسن  نے شکوہ کیا کہ اہم خبریں صرف مردوں کو دی جاتی تھی تو پھر انہوں نے اس پر اعتراض کیا اور اہم خبروں کو پڑھنے کا حق لینے کیلئے تگ و دو کرکے اسکو  حاصل بھی کیا۔ اسی طرح کچھ سینئر اینکر خواتین نے اپنی تنخواہ میں اضافے اور غیر پیشہ وارانہ رویے کے خلاف  ریڈیو میں احتجاج کیا ، جیسے ہی وہ خواتین کمرے سے باہر  گئیں تو مرد حضرات انکے خلاف بولنا شروع ہو گئے ’’ان عورتوں نے دماغ خراب کیا ہوا ہے‘‘، ’’ان کو کرنا کچھ نہیں آتا ، باتیں کرا لو‘‘، ’’ان بڑھیا کو سنہرے خواب آنے لگے ہیں‘‘،  جبکہ کبھی کسی مرد سینئر کو تنخواہ کے اضافے کی بات پر ایسے نہیں کہا گیا۔ عصمت دری کے واقعات پر ایک ورکشاپ میں ایک صاحب نے کہا کہ عورتوں کو مردوں کو اپنے نزدیک آنے نہیں دینا چاہیئے ، دوسری صورت میں عصمت دری کے واقعات  ہی ہونگے۔ عورتیں اجازت دیتی ہیں تبھی ایسا ہوتا ہے۔‘‘   

شائستہ یاسمین، پراجیکٹ منیجر عکس،  کے تجزیہ کیمطابق کرونا وبا    ءکے بعد اب بقاء کی جنگ چل رہی ہے، تضحیک آمیز جملوں پر ابھی کوئی بات نہیں ہو رہی، بلکہ انہی جملوں کیساتھ خواتین سے روزگار کا حق چھینا جارہا ہے۔صرف ستائیس فیصد خواتین افرادی قوت کا حصہ ہیں۔ وباء کے دنوں میں ہر دفتر سے سب سے پہلے   خواتین کو برخاست کیا گیا،  ایسے میں پاکستان کیسے ترقیاتی اہداف  مکمل کر پائے گا۔ دوسری جانب کرونا وبا کے دوران 80 فیصد خواتین نے گھر بیٹھ کر روزگار کے مواقع خود پیدا   کرکے کمایا ۔اسکینڈینیوین ممالک میں دو سو برس بعد  صنفی تنخواہ کی خلیج (Gender pay gap) میں کمی آئی ہے، لیکن پاکستان میں ابھی خواتین کو کام کی جگہ پر قبولیتکا مسئلہ درکار ہے۔

پڑھے لکھے نمائندوں کی اسمبلی میں خواتین کو ’ٹریکٹر‘، ’ٹیکسی‘ ، ’میک اپ مارکیٹ ‘اور ایسے الفاظ سے مخاطب کیا گیا، سابقہ خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کواسمبلی میں  ٹماٹر کا بھاؤ پوچھا گیا ، پدرشاہی نظام  اور معاشرے کی محدود سوچ اتنی گہری  جڑیں پکڑ چکی ہے کہ اب یہ الفاظ پیشہ وارانہ زندگی کا حصہ لگتے ہیں۔  اسمبلی کی میٹنگ ، جہاں حقوق کی پاسداری کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں، وہاں خواتین کو سرعام تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس ملک میں عام عورت کو کیا تحفظ حاصل ہوگا۔

سوال پوچھنے یا حق کیلئے آواز اُٹھانے والی لڑکیوں کو رشتے کیلئے نامنظور کردیا جاتا ہے۔ لڑکیاں شکایت کرتی ہیں کہ اگر انکے رشتے کی بات چلے تو لڑکے کی فیملی  رضاکارانہ  یا غیر سرکاری تنظیم میں کام کرنیوالی خاتون یا لڑکی سے رشتہ کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ دوسری جانب ایسی بہت سی خواتین ملتی ہیں جو شادی کے بعد شوہر کے کہنے پر سرکاری ملازمت بھی چھوڑ دیتیں ہیں، پھر دس  برس بعد شوہر  سے اکیلے گھر کا خرچہ نہیں سنبھالا جاتا تو  وہ بیوی پر  زور دیتا ہے کہ اب وہ بھی کمانے نکلے، جبکہ ایک دہائی میں فیلڈ کی ڈیمانڈ ہی بدل چکی ہوتی ہے، ایسے میں خاتون  گھریلو اور پیشہ وارانہ ذمہ داری میں پس کر رہ جاتی ہے۔

تانیہ  آدم خان، انٹیگریٹو سائیکو تھراپسٹ (Integrative Psychotherapist)  کا کہنا ہے کہ پدر سری نظام  ایک گلوبل مسئلہ ہے، اس میں مائیں سب سے پہلے بیٹی میں  روایات اورمتعین حدود کا خوف  ڈالتی ہیں پھر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین کیلئے مواقع کی تعداد اور  نوعیت مختلف کر دی  جاتی ہے۔ اکیلی خاتون پر معاشرتی اور فیملی دباؤ بڑھ جاتا ہے، اور زندگی کے کسی مرحلے پر خاوند یا گھر والے بھی ساتھ چھوڑ  دیتے ہیں، اور حالات کی خرابی کا ذمہ دار خاتون کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔

بالخصوص جنوب ایشیا ء میں خواتین  کو انسان کی بجائے صرف جنسی چیز سمجھا جاتا ہے، اسکی دیگر صلاحیتوں کو  دیکھا یا اہمیت نہیں دی جاتی ۔یہی وجہ ہے کہ ہر دفتر کے استقبالیہ (reception)  اور سیکریٹری کی سیٹ پر  آپکو اچھی دکھائی دینے والی بچی/لڑکی/خاتون دکھائی دے گی۔ ملٹی نیشنل کمپنی میں خواتین اعلی عہدوں پر فائز ہوتی ہیں،مگر انکو بھی ایسے ہی منفی جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انسانی فطرت ہے اگر وہ کوئی جسمانی یا ذہنی مشقت نہیں کریگا تو وہ فساد برپا کریگا، اس لئے یہ کہنا کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہے یہ جملہ  ذومعانی ہیں۔ اگرپرندوں کو قید میں رکھا جائے یا  مردوں کو ہی بیس سال کیلئے گھر بیٹھا دیا جائے تو وہ بھی بیس برس بعد گھر سے باہر کام کرنے کو معیوب سمجھیں گے۔ ویسے بھی عورتوں کو گھر بیٹھا کر کونسی اچھی نسلیں پیدا کرلیں ہیں، جنہوں نے عالمی دنیا میں نیک نامی حاصل کی ہے،عصمت دری،  قتل وغارت اور قاتل مجمع نسل  ہی سامنے آئی  ہے۔  

مغرب کا معاشرہ، سیاستدان، میڈیا، ادارے ، حتٰی کہ عوام  خواتین کو خود مختاری دینے کی سمت رکھتے ہیں جبکہ مشرقی معاشرے میں کام کرنیوالی خواتین کم ہیں اور اقلیتی گروہ کی خواتین مزید اقلیت میں آتی  ہیں ۔ ریاست اور میڈیا  اپنے اشتہارات اور ڈراموں کے ذریعے عوامی بیانیہ بدل سکتا ہے اسکے علاوہ لوگوں کو خود بھی ہمت کرنا چاہیے،اب گھر والوں کو حمایت اور مدد کرنا چاہیے تاکہ خواتین نئے افق تلاش کرسکیں اورافسانوی  روایتی کرداروں سے نکل کر حقیقی دنیا کا مقابلہ کر سکیں ۔

گھر سے باہر پیشہ وارانہ زندگی اپناتے ہوئے اس بات سے آگاہ ہو کر نکلیں، اس بات کو تسلیم کرلیں کہ کوئی باپ یا بھائی یا فیملی کے فرد کی طرح مددگار نہیں ہوگا، آپکو ہراسگی یا گندی نظر ، لغو باتوں  اور حرکتوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہےلیکن آپ نے اپنے مقصد سے نہیں ہٹنا ورنہ پہلی حرکت یا غلط جملے یا ہراسانی سے آپ کے دماغ کے دروازے بند ہو جائیں گے، آپکا اعتماد بکھر جائے گا، آپ کیلئے خود کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔

کام کی جگہ پر مستقل مزاجی ، مثبت سوچ، خود کو معاف کرنا سیکھیں، گونگے بہرے بن جائیں اور صرف اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو نکھارنے اور نئے تقاضوں کو پورا کرنے والی تکنیکی مہارتیں سیکھنے میں جُت جائیں۔ آن لائن یا آف لائن دوسری کامیاب خواتین سے جڑیں اور  سپورٹ گروپس بنائیں اور اپنے تجربات شئیر کریں تاکہ نئے آنیوالے ذہنی طور پر اسکے لئے تیار رہیں۔   غلطی کرنے سے نہ گھبرائیں، غلطی کے انجام کو مدنظر رکھتے ہوئے حفاظتی  انداز میں  پیشہ وارانہ  تجربات ضرور کریں۔  اپنے اندر خوف کو پیدا نہ ہونے دیں اگر اردگرد کے لوگوں کے جملوں سے خوف اپنی جگہ بنا بھی لے تو اسکا سامنا کریں، اس خوف کا نتیجہ/مستقبل سوچیں! اس عمل سے آپ اپنے خوف کی حقیقت کو جان لیں گے کہ یہ محض ایک وہم ہے یا کوئی خطرہ ہے جس کیلئے کوئی تدبیر اپنائی جا سکتی ہے۔لڑکیوں یا خواتین کو کام ضرور کرنا چاہیئے تاکہ آجکل کے دورمیں  کسی ایک ساتھی پر ساری ذمہ داری ڈالنے کی بجائے دونوں ملکر کمائیں۔

بشری رانی،   سائیکالوجسٹ  کا کہنا ہے کہ انہی الفاظ کے بوجھ تلے دب کر مرد گھر کا واحد کفیل بن جاتا ہے حالانکہ آجکل جتنے کھانے والے اتنے ہی کمانے والے چاہیے،ورنہ خودکشی کی صورتحال کو بڑھاوا ملتا ہے معاشرہ اسلامی اقدار بھول چکا ہے جہاں حضرت خدیجہ ؓ ایک کام کرنیوالے خاتون اول تھیں، مگر آج لوگ ڈاکٹر یا انجینئر لڑکی سےشادی تو کرنا چاہتے ہیں، مگر پھر وہ بچے بھی پیدا کرے، نوکری بھی کرے، گھر بھی سنبھالے مگر مرد گھر بنانے میں اسکی مدد نہیں کرنا چاہتا۔  گورنمنٹ کو بس  سٹاپ پر ہراسانی اور انکے قوانین کو پرنٹ/خاکوں کی صورت میں آویزاں کرنا چاہیے، کیونکہ  بعض اوقات مرد حضرات کو علم ہی نہیں ہوتا کہ انکا غیر محسوس رویہ یا حرکت  غیر استقبالیہ ہے، اور وہ کسی کی ذہنی صحت کو کس حد تک متاثر کرسکتا ہے۔

معاشرہ عورت کو صرف جنسی مال کے طور پر دیکھتا ہے، گھر میں شوہر کا  جنسی مال اور گھر سے باہر   نکلتی ہے تو  آجر  (employer) سے لیکر چپڑاسی یا بس سواری، یا راہگیر تک اسکو جنسی مال ہی تصور کرتے ہیں ،پھر عورت باہر آگئی تو عوامی استعمال کا  مال ہے، کمائے اور ساتھ میں سب کی ہوس پوری کرے، کسی کی آنکھوں ، یا بستر میں جاکر۔۔ پدر شاہی میں عورت کو قابو کرنا ایک محبوب مشغلہ ہے کہ عورت کو کیسے کپڑے پہننا چاہیے، اسکو بیٹھنا ، اُٹھنا، چلنا، کھانا، بولنا ، کرنا یا نا کرنا کیسے چاہیے، گھر میں خاندان والے اور روزگار کی جگہ پر ساتھی یا  آجر  اسکو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔  خواتین بھی روایتی  تصور سے باہر نہیں آنا چاہتی ، بصورت دیگر سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اسکے ساتھ اچھی یا بری عورت  کا تصور بھی کافی کنفیوژنگ ہے ،  اونچی آواز میں  اپنے حق کی بات کرنیوالی، دلائل کیساتھ برائی کو برائی کہنے والی ،  خود اعتمادی  یا جارحانہ انداز میں بات کرنیوالی اچھی عورت نہیں ہوتی۔ کرئیرکو منتخب کرنیوالی خواتین کو  لالچی، خود غرض ، بُری ماں  و عورت جبکہ  فیملی کی خاطر اپنی ذات کی خودکشی  کرنیوالی کو اچھی عورت کہاجاتا ہے۔ ان کٹیگری کی وجہ سے خواتین خودمختاری اور اعتماد کی بجائے مطیع کے کردار میں ہی  راضی رہتی ہیں کہ وہ اچھی عورت کی کٹیگری میں  آتا ہے۔  

پیشہ وارانہ  اہلیت  بہت اہم ہوتی ہے، پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں   جہاں لوگوں کو  پیشہ وارانہ اور غیر پیشہ وارانہ رویوں کی تمیز و تربیت سیکھائی جائے، مردوں کی نااہلی پر باقی عیبوں کی طرح  بلند آواز کا پردہ پڑ جاتا ہے، جبکہ اکثریت خواتین   کام اور  مصنوعی مشکلات سے گھبرا کرروایتی  کردار کو اپنا لیتی ہیں،  اگر کسی کو خوش رکھ کر کام نکل سکتا ہےتو اہلیت نکھارنے پر محنت کی ضرورت نہیں۔  اسکے مقابلے میں خود اعتماد، اور قابل خواتین  کو آغاز سفر میں اپنے مردساتھیوں کو عورتوں کیساتھ رویہ جات سیکھانے میں بہت وقت لگتا ہے مگر وہ    اپنے حق کیلئے ناصرف آواز اُٹھاتی ہیں بلکہ  آخرکار وہی خواتین صحیح قابل پیشہ ورکامیاب خواتین ثابت ہوتی ہیں۔

 اس لئے جامعات سے فارغ التحصیل  لڑکے اور لڑکیوں کو پیشہ وارانہ رویوں کی  کوچنگ کی اشد ضرورت ہے جو  انہیں سیکھائے  کہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے مراحل کیسے طے کرنا ہیں ، مشکلات  کی  شناخت اور حل کیلئے مدد کا کونسا طریقہ اپنانا ہے  اور انکے پسندیدہ پیشے میں انکی کم ازکم کتنی پیشہ وارانہ  اہلیت  (behavioral)یاتعلیم  درکار ہوگی تاکہ انہیں معلوم ہو کہ کونسی بات کہاں اور کس سے کرنا ہے۔

آن لائن دنیا میں   کام کی جگہ پر ابلاغ کے حوالے سے لیڈرشپ کوچنگ کی ماہر شاڈِ ذرائے(Shade Zahrai) اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو   کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے علاوہ گلاس سیلنگ، گیس لائٹننگ، مصنوعی مشکل حالات،  مستقبل کا خوف دلانا، حوصلہ شکنی،  کردار کُشی، اہلیت پر سوال اُٹھانا، منفی ماحول، خود پسندی یا خود نمائی  کا طعنہ دینا، سٹوریز /رپورٹ کو روک  دینا، تحقیقی خیال کو چُرا نا جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاڈِ ذرائے تجویز کرتی ہیں کہ اگر آپکا ساتھی کارکن آپکے کام کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے تو فوراً مگر تحمل اور مسکراہٹ کیساتھ حاضرین کی آنکھوں میں دیکھتے اپنی پوزیشن بتائیں کہ میں نے اس کام کو اپنے ساتھی کیساتھ اس مرحلے تک مکمل کیا اور اس دوران میں دوسرا کام مکمل کررہی تھی/تھا۔ 

کسی بھی پیشہ وارانہ فیلڈ میں آنے سے قبل اپنے مقاصد کو واضح طور پر لکھ لیں،  اس فیلڈ کی ڈیمانڈ،  اس میں آگے بڑھنے کے کیا مواقع ہیں؟ کیا میرے مشاغل اس فیلڈ میں میرے کام آ سکتے ہیں؟ میری کونسی انفرادی صلاحیت مجھے اس فیلڈمیں انمول بنا سکتی ہے؟  مراقبے اور ڈائری لکھنے سے اپ اپنے رویوں، حالات اور ترقی کا جائزہ لے سکیں گے۔غلطی ہو جانے کی صورت میں خود کو معاف کرکے اس   غلطی سے سیکھ کر آگے بڑھیں تو یقیناً یہی آپ کا مخفی ٹیلنٹ ہے ، پھر بس آپکو گونگے بہرے بن کر اپنی مہارتوں اور اہلیت کو نکھارنے کی طرف توجہ لگانا ہے۔

نوٹ!محدود ذرائع اور وقت کی کمی کے باعث صرف کام کرنیوالی  خواتین سے متنازع جملوں کے بارے میں پوچھا گیا، کہ وہ کونسے جملے ہیں جو وہ کبھی بھول نہیں پائیں !انہیں  بہت زیادہ سننے کو ملنے والے جملے،  اس موضوع پر صرف ایک ہفتے میں اتنا مواد سامنے آیا کہ اس پر ڈاکٹریٹ کا  تحقیقی مقالہ کیا جاسکتا ہے