تنزیلہ مظہر !!!
خواتین کے حقوق پر سماجی بیانیہ ہمیشہ متنازعہ کیوں رہا ؟ یہ سوال بہت اہم اور دلچسپ ہے ۔  معلومات کے بڑھتے وسائل اور ٹیکنالوجی کے اثرو رسوخ کے باوجود یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے ۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں جب معاشرتی مسائل اور برائیوں کا پردہ فاش ہو چکا ہے ۔ خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے رپورٹس  کے ساتھ ساتھ شواہد بھی سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود بھی    خواتین کے حقوق کی تحریکوں کو غیر ملکی ایجنڈا اور ملک دشمن سازش قرار دینے کی باتیں عجیب محسوس ہوتی ہیں ۔
آجکل فیک نیوز پر کافی بحث جاری ہے فیک نیوز  مراد صرف غلط خبر نہیں بلکہ حقائق کو مسخ کرتا بیانیہ بھی ہے جس سے کسی بھی مسئلے کو غلط تصوارت میں پیش کیا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق سے جڑی خبروں اور اہم مواقع کی کوریج بھی اسی زاویے سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ  اس امر پر غور بھی  ضروری ہے کہ کیا خواتین کے مسائل ،حقوق و تحاریک پر آزادی سے اور غیر جانبداری سے مباحثہ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر پیش کیا جا سکا ہے ۔ اس سوال کاُ جواب بدقسمتی سے نفی میں ہے ۔۔ کسی بھی مسئلے پر عوامی راۓ قائم کرنے میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے ۔ میڈیا کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داری بھی آج کے دور میں بہت بڑھ گئی ہے میڈیا کی بنیادی اقدار انہی اخلاقی خطوط پر استوار ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ میڈیا پر لازم ہے کہ وہ ہر موضوع کی غیر جانبدارانہ کوریج کرے۔ سماجی تعصب اور تقسیم سے مبرا ہو کر حساس موضوعات کو زیر بحث لاۓ۔ میڈیا کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی بھی موضوع یا واقعے پر حتمی راۓ نا نشر کرے بلکہ تمام پہلؤوں کا احاطہ کر ے اس معاملے پر تمام طبقہ فکر کی راۓ شامل کرے اور اپنے ناظرین پرفیصلہ چھوڑ دے۔
بالخصوص معاشرتی مسائل پر مکمل حقائق کے ساتھ مثبت  بحث ہونی ضروری ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بحث ہمیشہ سے غلط تصورات اور تنازعات کا شکار رہی ہے ۔اس سلسلے میں وہ شخصیات بھی متنازعہ سمجھی جاتی ہیں جو  آزادی نسواں  اور صنفی  برابری پر بات کرتی ہیں۔
ان شخصیات کو بالخصوص خواتین کی آزادی کے لئے متحرک خواتین کی ذاتی زندگی کو جس طریقے سے زیر بحث لایا جاتا ہے وہ سنسنی خیز اور متعصبانہ ہے ۔ ان خواتین کی شخصیت کے ساتھ مغربی گایجنڈا اور بیرونی ساز ش جیسے تصورات جوڑ کر پوری تحریک کو سوالیہ نشان بنا دیا جاتا ہے۔ آزادئ نسواں پر نعرے لگانے والی عورتیں کون ہیں؟ ان کی اصلیت کیا ہے ؟ یہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ یہ موضوعات سوشل میڈیااورمین سٹریم میڈیا پر بار بار زیر بحث آتے ہیں اور ایک خاص پیراۓ میں ان ہر بات کی جاتی ہے۔ جب میڈیا ان خواتین لیڈرز کو کوریج دیتا ہے تعصب کی عینک کبھی بھی نہیں اتاری جاتی ۔
انسانی حقوق پر آواز اٹھانے والی خواتین کو مخصوص انداز میں کور کیا جاتا ہے جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کی آزادی اور حقوق پر بات کرنے والی خواتین آزاد خیال عورتیں ہیں اوریہ اس اشرافیہ کا حصہ ہیں جو تعداد میں مٹھی بھر ہیں  ماور مغربی تہذیب سے متاثر ان خواتین کا پاکستان کی سماجی اقدارسے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔
ان خواتین کے لباس ان کے طرز زندگی پر غیر محسوس طریقے سے راۓ قائم کی جاتی ہے ۔ اس تعصبانہ رپورٹنگ کی بہترین مثال عورت مارچ کی میڈیا کوریج ہے ۔ عورت مارچ میں زندگی کے پر شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شرکت کی۔ برقعے والی، چادر والی ، مزدور طبقے کی عورت، گھریلو عورت، دفتر میں کام کرنے والی جدید تراش خراش میں ملبوس عورت ، جدید خیالات کی انقلابی خواتین ، طالبات اور رجعت پسند خواتین یہ سب عورت مارچ کے شرکاء تھے لیکن میڈیا نے چند تصویروں کا انتخاب کیا ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ  یہ انتخاب مختلف خیالات کے حامل ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر ایک جیسا تھا ۔ اس انتخاب کو بہت غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے اس منتخب کوریج کو بلا سوچے سمجھے کی جانے والی کوریج کہنا غلط ہو گا ۔ کیونکہ اس منتخب اور ادھوری کوریج سے تحریک نسواں کے ایک نئے دور اور تاریخ کی اہم ترین پیش رفت کو بغیر کسی محنت کے متنازعہ بنا دیا گیا ۔  اس نتیجے کو جانچتے ہوۓ یہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہو گا کہ کس طرح منظم انداز میں خواتین کے حقوق کے لئے اٹھنے والی آوازوں کے سامنے غیر محسوس بند باندھے جاتے ہیں ۔