تنزیلہ مظہر 

گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں خواتین کی حیثیت اور تحفظ کے لئے اہم قانون سازی کی گئی ۔ اگرچہ اس قانون سازی کا عمل اتنا تیز رفتار نہیں رہا جس قدر یہاں خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی جاتی ہے ۔ اس قانون سازی کے باوجود پاکستان کو عورتوں کے لئے دنیا کا چھٹا خطرناک ملک کہا جاتا ہے ۔ خطرناک کیوں ؟ عورتوں کو جنسی زیادتی ، جنسی ہراسانی ، جنسی تشدد ، گھریلو تشدد اور تیزاب گردی جیسے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔ قوانین کی موجودگی بھی ان جرائم کی شرح میں کوئی حقیقی کمی نہیں کر اسکی۔ اس ناکامی کی دو بڑی وجوہات ہیں پہلی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے ساتھ جو منفی تصورات جوڑے گئے ہیں وہ اکثر خواتین کو ان جرائم پر خاموش رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ خاموشی مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔ دوسری بڑی وجہ قانون کی سست رفتار ہے قانونی تقاضے پورے کرنے جس تکلیف دہ عمل سے متاثرہ خواتین اور ان کے خاندان گزرتے ہیں اس سے بھی خواتین زیادتی کا شکار ہونے کے باوجود پولیس اور عدالت تک رسائی سے گھبراتی ہیں۔
بظاہر خواتین پاکستان کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں ۔ ان کی تعداد ورک فورس میں بڑھ رہی ہے اس کی علاوہ اہم سرکاری اداروں میں خواتین کی نمائندگی سے پاکستان کا تاثر بہتر ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ورلڈ اکنامک فورم جیسے اہم ادارے پاکستان کو صنفی تفاوت کے تناظر میں بہت خطرناک گردانتے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں خواتین کے حقوق کے تحفظ میں تھی اسے پاکستان کی ناکامی پر تشویش کا شکار ہیں۔ اس ساری صورتحال میں سب سے اہم خواتین کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب نہ رکنا ہے ۔ ان جرائم غیر انسانی جسمانی تشدد سے لے کر جنسی زیادتی اور گینگ ریپ جیسے شرمناک جرائم شامل ہیں ایک خیال یہ بھی ہے کہ رپورٹ ہونے والے کیسز میں جرم ثابت ہونے اور سزاؤں  کی شرح اتنی کم ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں قانون کا ڈر نہیں۔
 پوری دنیا دسمبر میں خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔ اس برس اس مہم کا موضوع ریپ یعنی جنسی زیادتی ہے ۔
پاکستان جیسے معاشرے میں اتنے گنجل ہیں کہ کسی مسئلے کا کوئی ایک سرا ہاتھ میں پکڑیں دوسرے الجھ جاتے ہیں ۔ ایسا ہی گھمبیر مسئلہ جنسی زیادتی اور اس پر قانون سازی کا ہے ۔ آج پاکستان میں ریپ کے قوانین بتدریج بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن پھر بھی یہ عمل اتنا آہستہ ہے کہ اس کی سست روی کئی زندگیوں کو نگل گئی ۔ ایک طرف ایک مسلسل جدو جہد جنسی زیادتی کے خلاف قانون سازی کے لئے راستہ بنا رہی تھی جبکہ دوسری طرف جرگے اور روایتی پگڑی والے زیادتی کو ایک سبق سکھانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ۔ یہ تاریکی اور سیاہی مختاراں مائی کے کیس نے دو ہزار دو میں پاکستان کی سرحدوں سے باہر اٹھا کے پھینک دی ۔ دنیا جب مختاراں مائی کو ایک بہادر عورت قرار دے رہی تھی ملک کے اہم ادارے اسے ڈرامہ اور شہرت کی بھوکی قرار دے رہی تھے ۔ یہ سب ہمارے سماج کی وہ تصویر ہے جو دہائیوں سے دھندلی نہیں ہوئی ۔ آج بھی ریپ کے اکثر کیسز ان الزامات کے ڈر رپورٹ ہی نہیں ہوتے ایک اندازے کے مطابق ہر سال ایک ہزار سے زائد ریپ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ لیکن منطقی انجام تک پہنچنا ایک مشکل اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ کم سن بچیوں کو زیادتی کا شکار کرنے کے واقعات میں تشویش کا باعث ہے دو ہزار اٹھارہ کے پہلے چھ ماہ لم عمر بچیوں سے زیادتی کے ستر سے زائد کیسز رپورٹ ہوۓ مگر مجرموں کو سزا کسی کیس میں نہیں ہوئے ۔ زینب کیس کے بعد معاشرے میں اس موضوع پر بات کرنا مشکل نہیں رہا مگر ابھی تک ریاست کی پاس اس جرم کے ارتکاب کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں اب تک کی پیش رفت دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ صرف آگاہی یا پولیس میں رپورٹ کرانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ دو ہزار چھ میں حدود قوانین سے زیادتی کا جرم الگ کرنا قانون سازی کے حوالے سے ایک بہت اہم کامیابی ہے خواتین پر زیادتی کی شکایت کرنے پر جو پہاڑ ٹوٹتے تھے ان میں اب کمی آئی ہے ۔پہلے ریپ کی شکایت کو ثابت کرنے کے عمل میں عورتوں کو جیل جانا پڑتا تھا اب ایسا نہیں ہوتا۔ دو ہزار سولہ میں اس قانون میں ہونے والی ترامیم نے اس قانون کو اور مظبوط کیا ہے ۔ ان ترامیم سے عدالتی کارروائی کو خواتین کے لئے آسان اور تیز کرنے کا طریقہ وضع کیا گیا ہے۔ اس قانون میں اب زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو عدالتی کارروائی کے دوران تحفظ دینے کے لئے ان کے بیان کو ان کیمرہ ریکارڈ کروانے کا لیگل فریم ورک مہیا کیا گیا ۔ اسی طرح ریپ کاُ شکار ہونے والی خاتون کے پولیس میں بیان کے لئے ایک اور خاتون کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ حوانیت کی حد یہاں تک عورتوں کو چیر پھاڑتی تھی کہ وہ زیادتی کا کیس رپورٹ کرنے جاتیں تو تھانوں میں انہیں دوبارہ زیادتی کاُ شکار بنایا جاتا بالخصوص خواجہ سرا عورتوں کو اس درندگی کا نشانہ بنایا جاتا تھا ۔ قانون میں ہونے والی ترامیم کو اہم سنگ میل کہا جا سکتا ہے مگر بدقسمتی سے یہ سارا سفر اس وقت تک رائیگاں جاتا رہے گا جب تک سماجی رویوں میں تبدیلی نہیں آۓ گی جب تک عورت کو ایک ملکیت سمجھنے کاُ رویہ نہیں بدلا جاۓ گاُ اور سب اے بڑھ کرجب تک خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لئے پورا سماج ذمہ داری نہیں اٹھاۓ گاُ ۔