تنزیلہ مظہر

خوبصورت لب و لہجے ، جدید وضع قطع کے لباس ۔ چہرے پر میک اپ کی ہلکی تہہ میں چھپی تھکن ۔ لیکن بظاہر یہ کھلکھلاتی ہنستی مسکراتی خواتین  ایک دوسرے سے تعارفی کلمات کہتے گروپ کی صورت میں زندگی میں پہلی بار کسی ایسے سفر پر تھیں جہاں کام نہیں تھا بلکہ سالوں سے اپنے کام اور کام سے جڑے مسائل کی تھکن اتارنا اس سفر کا مقصد تھا ۔ چلئے آپ کو بھی اس ملاقات میں شامل کرتے ہیں۔
ہم سے ملئے ہم پاکستان کی حساس شہری , درد دل رکھنے والی خواتین صحافی ہیں ۔ یہ ملاقات دو ماہ قبل ہوئی  جہاں ہم نتھیا گلی کی سرد شاموں میں اپنی آپ بیتیاں ایک دوسرے کو سناتے  مزید مضبوط محسوس کر رہی تھیں۔ کبھی کسی بات پر سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے اور کبھی اداس ہوتےہوئے ٹھنڈے ہاتھوں سے ایک دوسرے کےگرم آنسو صاف کر رہی تھیں۔
یہ بہت مظبوط ارادوں اور عزم والی خواتین کا اکٹھ ہے جو معاشرتی برائیوں کا شکار ہونے کے باوجود ایسے شعبے میں آئیں جہاں وہ دوسرے شہریوں کے لئے آواز اٹھاتی ہیں ۔ اکثر خواتین صحافیوں کی بنفس نفیس یہ پہلی ملاقات تھی ۔ پورے ملک سے صحافیوں کو یہ گروہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی دعوت پر اکٹھا ہوا تھا ۔ یہ سب  کیسے سہیلیوں کی طرح گھل مل گئیں اس کا اندازہ مجھے بھی نہیں
لیکن یہ سچ ہے کہ ہر کہانی کے کردار بدل رہے تھے مگر معاشرے میں عورتوں پر کیے جانے والے “وار “وہی تھے ۔ ان سب کی جدو جہد ایک جیسی تھی ۔ ان خواتین نے جب یہ فیصلہ کیا کہ انہیں صحافت کرنی ہے تو تقریبا سب نے ہی گھروں میں خاندانوں میں ایک جذباتی محاذ لڑا ۔ اورُ اس محاذ کی کی کامیابی کو اعتماد بنا کر شعبہ صحافت میں آئیں لیکن یہ تو کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس سفر میں روز ایک محاذ پر جنگ ہو گی ۔ کیونکہ گھر کی طرح ہی  باہر کی دنیا بھی خواتین  کی راۓ کی عورت کی آواز کی عادی نہیں ہے ۔ تقریباسب عورتوں نے اپنے کام کرنے کی جگہ پر اپنے لباس پر اعتراضات اور بے ہودہ جملے سنے تھے ۔ سب کو ہی یہ جنگ بھی لڑنی پڑی کہ خواتین صرف سافٹ بیٹ کرنے کے لئے یا چہرے کی نمائش کے لئے جرنلزم میں نہیں آتیں ۔ اپنے کام کی سنجیدگی کو منوانے کے لئے ان سب کو روز غیر سنجیدہ رویوں کا سامنا کرنا پڑا : کسی کو اسائنمنٹ ایڈیٹر کسی کو ساتھی رپورٹر کی طرف سے اور کسی کو اپنے کسی اور سینئر کی طرف سے باہر چاۓ پینے کی آفرز ملتی ہی رہتی ہیں ۔ اسی حوالے سے  ایک خاتون صحافی کو اس کے ساتھی سینئر رپورٹر نے کہا کہ وہ انہیں بھی اسائنمنٹ پر ساتھ لے جائیں  اور  جب وہ گاڑی میں بیٹھے تو انہوں نے خاتون کا ہاتھ پکڑ کر ان کے گال چھو کر ان کا شکریہ ادا کیا ۔ وہ خاتون صحافی حیرانی کے بعد جب غصے میں آئیں اور اس ساتھی مرد رپورٹر کو گاڑی سے باہر نکلنے کا کہا تو وہ صاحب یہ فیصلہ سنا رہے تھے کہ آپ جیسی خواتین اس شعبے میں نہیں چل سکتیں ۔ چل سکنے سے مراد یقینا کامیاب ہونا تھا ۔ ایک خاتون اینکر نے بہت تکلیف دہ انداز میں پرانی یاد کو کھنگالا کہ جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو ان کا وزن تھوڑا سا بڑھ گیا تھا ایک بڑے چینل میں جس طرح کا رویہ ان کو جھیلنا پڑا وہ بہت مشکل تھا وہ خاتون اینکر ہمیشہ سے بہت محتاط اور سلیقے سے دوپٹّہ لیتی تھیں لیکن ایک بھری میٹنگ میں ایک ساتھی خاتون نے ان کا دوپٹہ سب کے سامنے ہٹا کر یہ بیان کرنے کی کوشش کی وہ اب کیسے موٹی نظر آتی ہیں ۔ ایک اور خاتون رپورٹر نے بتا یا کہ کس طرح ایک انگریزی روزنامے کے آفس میں ان کے کام کرنے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں وہ روز روز اپنی سٹوری شائع ہونے کا پوچھ پوچھ کر بالآخرایسے  نفسیاتی دباؤ کا شکارُ ہوئیں کہ جاب چھوڑ کر فری لانس کام کرنا شروع کر دیا ۔
سب کی کہانیاں ایسی تھیں سب ایک وقت میں کئی طرح کے نفسیاتی دباؤ کا شکار تھیں کسی نے اگر اپنے باس کے کسی بے ہودہ لطیفے پر ناگواری کا اظہار کیا تو اسے کام ملنا بند ہو گیا کسی نے اگر کسی کولیگ کو بے تکلف ہونے سے روکا اسے ہر روز نالائقی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ۔ کردار کشی ایک ایسا ہتھیار ہے جو ہر طرح کی صورت میں خواتین کے خلاف استعمال ہوتا ہے ۔ خبر کے لئے سورس بہت اہم ہے ۔ صحافتی زبان میں سورس کی یعنی خبر کے ذریعے کی کوئی صنف نہیں مگر حقیقت میں ذیادہ تر سورس مرد حضرات ہوتے ہیں مرد صحافیوں کو بھی سورس تنگ کرتے ہوں گے پیچھے بھگاتے ہوں گے لیکن اکثر سورس خواتین صحافیوں کو نت نئی فرمائشیں کرتے خبر بتانے کا وعدہ کرتے ہیں ۔ کچھ ساتھیوں نے بتایا کہ سورس ڈنر کرنے کی رٹ ہی لگا لیتے ہیں ۔ کوئی بات کہنے کی کوشش کریں کوئی خبر پتہ کریں توُ میڈم آئیں ناں کہیں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ٹائپ آفرز آنے لگتی ہیں ۔ہماری بعض ساتھیوں نے جب اپنے سینئرزُکی کام کے علاوہ ذاتی بے تکلفی پر اعتراض کیا تو ان کو آفس میں دیر تک روک کر تنگ کیا گیا ۔ بہت کہانیاں ہیں ہر کہانی پر ایک کالم لکھا جا سکتا ہے ۔ لیکن سب خواتین صحافی ایسے حالات کا کبھی نا کبھی کسی نا کسی ادارے میں شکار رہی ہیں ۔ بعض اپنی ملازمت کی جگہ بدل لیتی ہیں بعض اپنا کام ہی بدل لیتی ہیں لیکن یہ بہت بہادر خواتین ہیں جو اپنے محاذ پر ڈٹی ہوئی ہیں جو ہر صورت اپنے استحصال کے خلاف جدو جہد کر رہی ہیں یہ سب خواتین میری ہیرو ہیں ۔ ان سب اور ان جیسے خواتین کے عزم اور حوصلے وجہ سے ہی پاکستان میں صنفی برابری کا سفر کامیابیوں اے ہمکنار ہو گا ۔۔۔۔