خیبرپختونخوا میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا سلسلہ جاری، وجوہات کیا ہیں؟

Illustration by Mehak Tahir

خالدہ نیاز

ہمارے معاشرے میں نہ صرف خواتین کو بنیادی سہولیات سے محروم کیا جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات انکو معمولی معمولی باتوں پران پر تشدد کیا جاتا ہے اور بعض کو تو قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں اگرچہ پہلے کی نسبت خواتین کو تعلیم کا حق دیا جارہا ہے تاہم انکو غیرت کے نام پرقتل کرنے کا سلسلہ ابھی تک نہ رک سکا۔

خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے بعض کیسز میں ملزمان کو پکڑ بھی لیا جاتا ہے تاہم زیادہ تر ملزمان بری ہوجاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جس میں خواتین پرتشدد نہ کیا گیا ہو اور ایسی خبریں روز اخبارات کی زینت بھی بنتی ہے کئی ایک ادارے اس کے خلاف آواز بھی اُٹھا رہے ہیں لیکن پھر بھی ان میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

غیرت کے نام پربہت ساری خواتین قتل ہوجاتی ہیں لیکن بہت کم ایسی ہوتی ہیں جس کو رپورٹ کیا جاتا ہو کیونکہ خواتین کو قتل کرنے والے عموما انکے گھر یا خاندوان والے لوگ ہوتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی کو اس حوالے سے کانوں کان خبر ہو۔

نومبر میں مردان میں پانچ خواتین قتل

نومبر کے مہینے میں خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں صرف نومبر کے مہینے میں 5 خواتین کو قتل کیا گیا جن میں دو خواتین کو غیرت کے نام پر جبکہ باقی تین کو گھریلو ناچاقی پر قتل کیا گیا اوران جیسی کئی خواتین کو خاموشی سے قتل کردیا جاتا ہے لیکن کسی کوپتہ بھی نہیں چلتا۔

مردان سے تعلق رکھنے والے صحافی عبد الستار کا کہنا ہے کہ پختونخوا میں کئی خواتین کو بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے تاہم ایسے واقعات کو ہمیشہ چھپایا جاتا ہے جبکہ بہت کم کیسز ایسے ہوتے ہیں جنکی ایف آئی آر درج ہوتی ہیں یا وہ میڈیا میں آتے ہیں۔

عبد الستار نے غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کی مختلف وجوہات ہیں مثلا ہمارے لوگ سخت ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی خواتین پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، شادی کے وقت بھی لڑکی اور اور لڑکے کی مرضی کوئی نہیں پوچھتا اور یوں شادی کے بعد مسائل شروع ہوجاتے ہیں، بعض اوقات لڑکی لڑکے کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتی جبکہ کئی کیسز میں لڑکے اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو یوں ان دونوں کی زندگی برباد ہوجاتی ہیں اور پھر بات یا تو طلاق تک پہنچتی ہے یا پھر قتل بھی ہوجاتے ہیں۔

معاشرہ پسند کی شادی کی اجازت نہیں دیتا

عبد الستار نے مزید بتایا کہ اسلام نے لڑکے اور لڑکی دونوں کو مرضی کی شادی کی اجازت دی ہے لیکن معاشرہ انکو حق نہیں دیتا جس کی وجہ سے بہت سارے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر خواتین کو غیرت کے نام پرہی قتل کردیا جاتا ہے تاہم انکو ناچاقی کا نام دیا جاتا ہے یا پھر اکثر کیسز میں اس کو خودکشی کا رنگ بھی دے دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس کی ناقص کاکردگی کی وجہ سے بھی ملزمان کو سزا نہیں مل پاتی اور اہم بات یہ بھی ہے کہ لڑکی یا خاتون کے گھر والے اپنی بدنامی کی وجہ سے بھی اپنا اثررسوخ استعمال کرتے ہیں اور یوں ملزمان بری ہوجاتے ہیں یا پھرسرے سے ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوپاتی۔

ورلڈ اکنامک فورم کے 2021 کے جنسی تفریق یا تفاوت کے اعشاریوں میں دنیا کے 156 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 153 ہے۔ جنوبی ایشیا میں آٹھ ملکوں میں پاکستان کا درجہ ساتواں ہے صرف افغانستان پاکستان سے پیچھے ہے۔

2020 میں 422 مردو خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئے

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2020 میں پاکستان میں غیرت کے نام پر 422 مرد و خواتین قتل ہوئے جبکہ 2019 میں یہ تعداد 380 تھی۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2015 میں 1096 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 2014 میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 1005 ہے جبکہ 2013 میں 869 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

پشاور میں خواتین اور خواجہ سراؤں کے حقوق پہ کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم د حوا لور کی انتظامی افسر خورشید بانو کا کہنا ہے کہ خواتین کو نہ صرف گھروں میں قتل کیا جاتا ہے اور ان پہ تشدد ہوتا ہے بلکہ اب توعدالتوں میں بھی انکو قتل کیا جانے لگا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کے حقوق کے لیے قوانین بھی بن گئے ہیں تاہم پھر بھی خواتین پر تشدد کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

خورشید بانو نے بتایا کہ ان کا ادارہ تشدد کا شکار خواتین کو قانونی مدد بھی فراہم کرتی ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ ان سب چیزوں سے پہلے لوگوں کے روئیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، انکے ذہنوں میں یہ بات ڈالنی چاہیئے کہ خواتین بھی انسان ہیں انکے بھی حقوق ہیں جس طرح مردوں کے ہیں۔

سب سے پہلے مردوں کے مائند سیٹ میں تبدیلی لانی ہوگی

خورشید بانو کہتی ہیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات اور غیرت کے نام پر قتل میں کمی آئے تو اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے مردوں کے مائند سیٹ میں تبدیلی لانی ہوگی اور یہ شروعات ہمیں اپنے گھر سے کرنی ہوگی، سکول اور کالج لیول پر بھی اس پہ کام ہونا چاہیئے، عوامی بحث ہونی چاہیئے اس پہ اور اس میں میڈیا کا بھی بڑا کردار ہوسکتا ہے۔

انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ایسا نہیں ہے کہ گھریلو تشدد تعلیم کی کمی یا دیہاتی علاقوں میں ہوتا ہے بلکہ اگر گھریلو تشدد کی بات کی جائے تو بہت سارے اچھے گھرانوں میں بھی خواتین پر تشدد ہوتا ہے اور بہت سارے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس میں ملوث ہوتے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگوں کی ذہنوں میں تبدیلی لائے۔

قوانین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوانین تو بن جاتے ہیں لیکن پھر اس پہ عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ‘ گھریلو تشدد کا قانون خیبرپختونخوا میں پاس ہوا ہے لیکن ابھی تک اس کے رولز آف بزنس نہیں بنے، اس کے تحت ایک دس رکنی کمیٹی بننی تھی وہ بھی ابھی نہیں بنی، لوگوں کو ابھی تک نہیں پتہ کہ قانون کیا ہے اور اس میں کیا سزائیں ہیں تو جب تک لوگوں کو پتہ نہیں ہوگا عملی کام نہیں ہوگا تو تب تک قانون کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا’

خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے عورت فاونڈیشن کے ایک سروے کے مطابق 2020 میں خیبرپختونخوا میں 2297 خواتین تشدد کا نشانہ بنی جن میں 624 قتل کے بھی واقعات ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد کے اضافے کی بڑی وجہ کورونا وباء کے دوران لاک ڈاون کا لگنا تھا جس میں زیادہ تر مرد گھروں پر بیٹھ گئے اور ان کو معاشی تنگی نے آ گھیرا اور انہوں نے پہلے سے مظلوم طبقے خواتین اور بچوں پر تشدد شروع کیا۔

خورشید بانو کہتی ہیں کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے گھریلو تشدد کا شکار صرف ایک فیصد خواتین تب کیس فائل کرتی ہیں جب ان پہ قاتلانہ حملے ہونا شروع ہوجاتے ہیں، بہت ساروں کو مار دیا جاتا ہے اور انصاف بہت کم کیسز میں ملتا ہے۔

لوگوں میں شعور کی کمی اور قانون تک رسائی نہیں ہے

انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں ہمارے ہاں خواتین پر تشدد ہوتا ہے، انکو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے کیونکہ ملزمان کو سزائیں نہیں ملتی، لوگوں میں شعور کی کمی ہے، لوگوں تک قانون کی رسائی نہیں ہے تو جب تک ریاست بذات خود اس میں دلچسپی نہیں لے گا تب تک خواتین پر تشدد کا خاتمہ ناممکن ہے۔

پاکستان میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے سلسلے میں سب سے پہلے قانون سازی صوبہ سندھ میں 2013 میں ہوئی تھی جس کے بعد 2014 میں بلوچستان اور پھر 2016 میں پنجاب میں بھی اس حوالے سے قانون نافذ ہوا۔ خیبرپختونخوا میں بھی اس حوالے سے سب سے پہلے قانون سازی کی کوشش 2012 میں کی گئی تھی لیکن تقریبا آٹھ سال کے وقفے کے بعد 2021 میں منظور ہو سکا۔

خیبرپختونخوا کے عورتوں پر گھریلو تشدد کی (حفاظت، روک تھام) کا قانون تقریبا آٹھ برس تک تعطل کا شکار رواں سال 15 جنوری 2021 کو صوبائی اسمبلی سے منظور ہوا تھا جس کے تحت صوبائی سطح پر ایک ہیلپ لائن کا قیام اور تمام اضلاع میں پروٹیکشن کمیٹیوں کا قیام ضروری ہے لیکن ابھی تک ان کمیٹیوں کے رولز فائنل نہ ہوسکیں۔ ہیلپ لائن قانون سے پہلے ہی بولو ہیلپ لائن کے نام سے موجود ہے۔

پاکستان میں غیرت کے نام پہ قتل کا قانون

پاکستان میں غیرت کے نام پہ قتل کا قانون 2004 سے موجود ہے تاہم زیادہ ترمقدمات میں ایسا ہوتا تھا کہ مدعی قتل کرنے والے کے ماں باپ یا بہن بھائی ہوتے تھے جو انکو معاف کردیتے تھے اور یوں مقدمہ ختم ہوجاتا تھا۔

تاہم اکتوبر 2016 میں غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں ترمیم منظور ہوا۔ قانون کے تحت غیرت کے نام پہ قتل کو ناقابل تصفیہ قرار دیا گیا ہے اور مرنے والے کے لواحقین کی جانب سے معافی کی صورت میں بھی مجرم قرار دیئے جانے والے کو عمر قید سے کم سزا نہیں دی جاسکے گی۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں ترمیم کا مطالبہ اس وقت زور پکڑتا گیا جب سوشل میڈیا سلیبریٹی قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔

تیراہ میں پہلی بار غیرت کے نام پر قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی

قبائلی اضلاع میں بھی عرصہ دراز سے خواتین کو نہ صرف بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے بلکہ کئی خواتین غیرت کے نام پر بھی قتل کی جاچکی ہیں۔ رواں برس مئی کے مہینے میں ضلع خیبر کے درو افتادہ علاقے تیراہ میں دو خواتین سمیت پانچ افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تاہم ضلع کی تاریخ میں پہلی بار ان واقعات کے باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوچکے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا فاٹا انضمام کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ فاٹا انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں پولیس نےکام شروع کردیا ہے اور اب خواتین کسی حدتک اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیں لیکن اس حوالے سے بھی اب بھی ویسا کام نہیں ہو رہا جس طرح ہونا چاہیئے کیونکہ چند واقعات کی ایف آر درج کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے جب تک اس میں ملوث افراد کو سزا نہیں دی جاتی۔  

مردان سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن ریحانہ شکیل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر خواتین پر تشدد ہوتا ہے لیکن بہت کم کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ پختون معاشرے میں غیرت کے نام پر کئی خواتین قتل ہوچکی ہیں لیکن عموما ایسے کیسز رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ اس کو لوگ غیرت سے جوڑتے ہیں اور جب کیسز ہی رپورٹ نہیں ہوتے تو انکو انصاف کہاں سے اور کیسے ملے گا۔

قانون موجود تو ہے لیکن فائلوں میں بند ہے

ریحانہ شکیل خورشید بانو سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ قانون تو موجود ہے لیکن وہ فائلوں میں بند ہے اس پہ عمل درآمد نہیں ہورہا اور جب تک عمل درآمد نہیں ہوگا تب تک اس کا فائدہ بھی نہیں ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ پختون معاشرے میں لوگ انا کی وجہ سے بھی ایسے واقعات پر چپ سادھ لیتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ انکے گھر کے معاملات باہر کسی کو پتہ چلے۔

پچھلے 17 سالوں سے سماجی کارکن کے حیثیت پر کام کرنے والی ریحانہ شکیل سمجھتی ہیں کہ اہم ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ مردوں میں اس حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ کیوں خواتین پر تشدد کرتے ہیں یا انکو جان سے ہی مار دیتے ہیں بات چیت کے ذریعے بھی تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

ریحانہ شکیل کہتی ہیں کہ ہمارے ملک میں مجرموں کو سزا بھی نہیں ملتی جس کی وجہ سے بھی خواتین پر تشدد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے اس بات پہ بھی زور دیا کہ عام لوگوں کو قوانین کے بارے میں آگاہی دی جائے کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو نہیں پتہ کہ اب خواتین پر تشدد کی صورت میں انکو سزا بھی ہوسکتی ہیں اور جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ خواتین کو بھی نہیں پتہ کہ اگر ان پر تشدد ہوتا ہے تو وہ اس کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیں۔