زندگی مگر پھر بھی پیاری ہے

Illustration by Mehak Tahir

By Saadia Mazhar

ہماری زندگی کا سیاہ دن ابا کی ناگہانی موت کا دن تھا، خواہشات تو کیا ہم ضروریات کی دستیابی سے بھی گئے۔ پڑھائی چھوڑی اور گھروں میں صفائی کا کام شروع کیا، اسی سے جہیز بنایا اور شادی ہوئی۔  بہت خوابوں سے بنا یہ رشتہ صرف دو ہفتے بعد ہی تھپڑ کی صورت رسید ہوا” یہ کہانی ہے ستائیس سالہ سمیرا کی جو ساہیوال کی رہائشی ہے اور ایک چار سالہ بیٹی کی ماں بھی ہے۔

سمیرا پر تشدد کا سلسلہ شادی کے دو ہفتہ بعد ہی کم جہیز کی وجہ سے شروع ہوا مگر داغ دار اس کے دامن کو کیا گیا۔ اچھی مشرقی عورت کا ثبوت دیتے ہوئے سمیرا نے بھی رشتہ نبھانے کے لیے ہر ظلم پر خاموشی اختیار کی مگر بدنصیبی یہ کہ پیدا ہونے والی جب بیٹی ہوئی تو سگے باپ نے اسے اپنا ماننے سے ہی انکار کر دیا۔

خلا دائر کرنے پر بھی وکلاء کی بھاری فیسیں ایک طرف مگر سمیرا کا سابقہ شوہر اسے طلاق بھی نہیں دینا چاہتا تھا کہ جس حد تک ممکن ہو اسے یر طرح کی اذیت پہنچائی جائے۔

یہ جنوبی پنجاب کے ایک گھر کی داستان نہیں جہاں کردار کو داغدار تو کیا جائے مگر اسی عورت کو اپنی جنسی ہوس کی تکمیل کے لیے بندی بنا کر بھی رکھا جائے۔ بلکہ دیہی علاقوں میں اسے باقاعدہ مرد کا جائز حق تسلیم کیا جاتا ہے اور عورت اس پر اف بھی کرنا گناہ سمجھتی ہے۔ مگر کیوں اور آخر کب تک؟ ہم مذہب کی اپنی تشریحات کے ذریعے مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہیں گے؟

امیر طبقہ ہو یا غریب۔ تعلیم یافتہ خاندان ہوں یا تعلیم سے کوسوں دور، نظام قبائلی ہو یا جاگیردارانہ، آخر خواتین ہی تشدد کا ہدف کیوں؟ ملک میں خواتین کی طویل جد و جہد کے بعد ریپ، کاروکاری، جنسی طور پر ہراساں کرنے جیسے جرائم کے خلاف قوانین بن تو گئے لیکن ان پر عملدرآمد نا ختم ہونے والی جدوجہد کا ایک اور کٹھن سفر ہے۔

بعض مرتبہ یوں لگتا ہے جیسے خواتین کے لیے ہر رکاوٹ کو عبور کرنا سات سمندر پار کرنے کے مترادف ہے۔ ریاست کی بنیادوں، مردوں کی بالادستی والے معاشرے کی تہوں میں انتہاپسندی اور اس کے رکھوالے پہرے پر موجود ہیں۔ بس یوں سمجھ لیں، جیسے یہ سب عورتوں کی زندگی کو قید کرنے کے لیے ہیں۔

جنوبی پنجاب ،خصوصا ساہیوال ڈویژن اور اس سے ملحقہ دیہاتوں میں آپ کو انسانی حقوق کی تنظیمیں آٹے میں نمک کے برابر منظم نظر آئیں گی مگر جو ہیں بھی وہ بھی مظلوم خواتین کی مظلومیت سے صرف فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

سمیرا نے اپنا روزگار ایک چھوٹے سے پارلر کو بنایا تاکہ باعزت طریقے سے اپنی اور اپنی بیٹی کی زندگی کی گاڑی آگے بڑھا سکے۔ جو کمرہ اس نے کرایے پر لیا وہ ایک مشہور سماجی شخصیت کو حکومتی فلاحی ادارے کی جانب سے ملی زمین پر تعمیز شدہ ہے جس کا واحد مقصد اسے خواتین کے لیے فلاحی کاموں کے لیے استعمال کرنا ہے مگر وہ با اثر سماجی شخصیت  بظاہر اسے  اپنی جانب سے فلاحی خدمت ظاہر کروا کر حکومت سے فنڈز بھی لے رہی ہے اور سمیرا سے کرایہ بھی۔ پنجاب میں خواتین کس قدر ظلم کا شکار ہیں اس کا اندازہ سال 2021 کے  دوران ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے 1890 کیسسز رپورٹ ہوئے جبکہ 88 خواتین کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔

 گزشتہ سال کی نسبت 300 واقعات زیادہ رپورٹ ہوئے، اس عرصہ میں 521 خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ خواتین سے 400 واقعات زیادتی کے  رپورٹ ہوے اور 442 مقدمات کی تفتیش ہی مکمل نہیں ہو سکی جبکہ 331 زیادتی کے مقدمات جعلی درج کرائے گئے جو بعد میں خارج کر دئیے گئے۔

ساہیوال کے سابقہ ڈی پی او صاحب سے ایک انٹرویو کے دوران “پنجاب پولیس ” کی ویب سائیٹ پر موجود پنجاب میں خواتین پر ہونے والے  مظالم کے اعدادوشمار کے حوالے سے سوال کیا تو اس حوالے وہ  سے مکمل لا علم پائے گئے۔ گویا شہر میں ڈکیتی یا دوسرے جرائم قابل ذکر ہیں مگر خواتین کے ساتھ کیا رویہ رکھا جاتا ہے یہ قابل غور بات نہیں۔

ملتان کی “قندیل ” بھی اپنے خوابوں کی تکمیل میں ایک بہتر زندگی کی تلاش کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتری مگر ایسی ہی ایک “قندیل” کی نا معلوم قبر شہر ساہیوال میں بھی ہے جس کی پسند کی شادی کی بے ضرر خواہش نے اس کے گھر والوں کی غیرت کو جگایا اور اسے زہر آور دوا دے کر ابدی نیند سلا دیا گیا اور رات کے اندھیرے میں ہی دفن کیا گیا مگر آج تک نا کوئی مقدمہ درج ہوا نہ ہی ان کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔

پنجاب میں اب تک107 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے (یہ  صرف وہ تعداد ہے جو سامنے آ سکی) جبکہ گھریلو لڑائی جھگڑے سمیت دیگر واقعات میں 387 خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، 217 خواتین کی دیگر وجوہات کی بنا پر جان لی گئی۔

پنجاب بھر میں 845 خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 16 خواتین پر تیزاب پھینکا گیا اور اغواء کے 4800 مقدمات درج ہوئے۔

ساہیوال ڈویژن کے اردگرد تقریبا 350 دیہات ہیں جہاں قانون کی دسترس تو ہے مگر قانون موجود نہیں۔ انہیں دیہی علاقوں میں بہت سی بچیاں غیرت کے نام پر سلا دی جاتی ہیں اور مارنے والے داد سمیٹتے ہیں۔ ساہیوال شہر کے سابق ڈی پی او کے مطابق” غیرت کے نام پر قتل ہونے والی عورت کا مقدمہ کوئی درج نہیں کرواتا۔ یہ مقدمات عموما پولیس خود درج کرتی ہے اپنی مد عیت میں وہ بھی اگر علم ہو جائے جو کہ عموما دیہی علاقوں میں بہت کم ہوتا ہے”

انسانی حقوق کی لاتعداد  تنظیمیں اس وقت پورے ملک میں خصوصا خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں پھر سوال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں کیوں نہیں؟

عورت تشدد سہہ رہی ہے مگر بول نہیں سکتی کیونکہ اس کے پاس کوئی سماجی طاقت نہیں ہے۔ بچی پڑھنے کی عمر میں ماں بن رہی ہے اور اپنے مرتے خواب پر چیخنا چاہتی ہے مگر کس دروازے کو کھٹکھٹائے؟ جنوبی پنجاب میں آج بھی پسند کی شادی پر بیٹی کا گلا گھونٹنے کو ترجیح دی جاتی ہے یا پھر بچی خودکشی کر لیتی ہے مگر کوئی آواز اٹھانے والا نہیں۔ یہاں بھی معصوم بچیوں کا جنسی استحصال ہو رہا ہے مگر قیامت کی خاموشی ہے کہ نا تو تھانہ آپکی تکریم کر سکتا ہے اور نا ہی ایسی خواتین کو کوئی قانونی مدد دینے کے لیے ادارہ موجود ہے۔ سوال ایک ہی ہے ” پنجاب کی عورت کے حصے میں آئے ان دردوں کا مداوا کیسے ممکن ہے؟

” پندرہ سال میں نے نوکر بن کر گزارے اور تین بچوں کو جنم دیا اس امید پر کہ میرا شوہر سدھر جائے گا مگر آج اپنے تینوں بچوں کے ساتھ واپس اپنے باپ کے گھر ہوں، خلا کا مقد مہ بھی کرلیا اور بچوں کے خرچے کا کیس بھی مگر میری زندگی کے ان پندرہ قیمتی سالوں کا کیا جو اس تجربے کی نظر ہوئے ” صائمہ نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا۔

“میں کالج کی ہونہار اور خوبصورت لڑکی تھی۔ مجھے نوکری کرنے کا اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کا شوق تھا لیکن والدین صاحب حیثیت ہوتے ہوئے بھی مجھے پڑھانا نہیں چاہتے تھے اور یوں کروڑوں مالیت کے جہیز میں رخصت ہوئی مگر پندرہ سال پانی کی طرح پیسہ بہا کر بھی میرے والدین میرا گھر نا بسا سکے۔ میرے حصے میں کیا آیا؟ ذہنی آزمائش،  سماجی نا پسندیگی اور مالی امداد ” صائمہ نے مزید کہا۔

بیٹیاں آزمائش نہیں بلکہ رحمت ہوتی ہے اسے اس لیے مت پڑھائیں کہ اس کی شادی کرنی ہے بلکہ اس لیے پڑھائیں کہ اس نے اپنے پاوں پر کھڑا ہونا ہے۔

ساہیوال ڈویژن اپنے اندرایسی بہت سی ان کہی داستانیں دفنائے لوگوں کے لیے زمین کشادہ کیے ہوئے ہے۔ آخر کب تک؟