سیاست کے حوالے سے یوں بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں دوست مستقل ہوتے ہیں اور نہ ہی دشمن بلکہ کسی بھی وقت کسی بھی ہونی انہونی کے امکانات موجود رہتے ہیں مگر بات اگر ہمارے ملکی سیاست اور بالخصوص بلوچستان کے سیاسی منظرنامے کی کریں تو یہ بات زیادہ وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہاں سیاسی منظرنامہ بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔بلوچستان کی سیاست میں کب کیا ہو جائے، کوئی نہیں جانتا، مسائل کے دلدل میں پھنسے عوام تو بالکل نہیں۔ بظاہر سیاست اور اقتدار سب معمول کے مطابق چل رہا ہوتا ہے مگر اچانک چند گھنٹوں میں سیاسی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ کسی کے اقتدار کا تختہ الٹ جاتا ہے اور کوئی بظاہر ہیرو سے زیرو اور کوئی زیرو سے ہیرو بن جاتا ہے.عام انتخابات سے قبل ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی اتحادی سیاست کا آغاز ہوگیا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مختلف حلقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے ساتھ اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہے دوسری جانب پشتونخواہ میپ کا مسلم لیگ ن کے ساتھ انتخابی اتحاد کا بھی امکان ہے۔بلوچستان کی کل آبادی 1 کروڑ 23 لاکھ 34 ہزار 39 ہے۔ ہرحلقہ کیآبادی کا تناسب 7 لاکھ 71 ہزار 549 رکھا گیا ہے۔ بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا آغاز اب کوئٹہ کے بجائے شیرانی سے ہوگا۔ بلوچستان میں حلقہ این اے 268 کی آبادی سب سے زیادہ دس لاکھ 83 ہزار افراد پر مشتمل ہے جبکہ سب سے کم آبادی والا حلقہ این اے 262 ہے جس کیآبادی تین لاکھ 86 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ بلوچستان کے تین بڑے حلقے این اے 258، این اے 259 اور این اے 264 ہیں۔ ان حلقوں کو پانچ اضلاع پر مشتمل کیا گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان کا سب سے چھوٹا حلقہ این اے 269 ہے۔

صوبہ بلوچستان کے مقامی افراد کو بہت زیادہ شکوے شکایات ہیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں اور انہیں ان کے جائز حقوق سے بھی محروم رکھا گیا مگر اس کے ذمہ دار خود بلوچستان کے سیاستدان ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن وفاقی جماعتوں نے وفاق کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا اور جن پر تمام صوبوں کہ ذمہ داریاں تھیں وہ خود مقامی پارٹیاں بن گئیں۔ بلوچستان میں تو ہمیشہ قوم پرست جماعتوں کا راج رہا مگر اب مسلم لیگ ن بھی پنجاب اور پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی قوم پرست جماعتیں بن گئی ہیں۔صوبہ بلوچستان کے عوام بنیادی سہولیات سے بمحروم ہیں۔ صوبہ بلوچستان غذا، تعلیم، صحت کی پسماندگی سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے سلسلوں میں بھی مکمل طور پر پسماندگی کا شکار ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری جب پاکستان کے صدر منتخب ہوئے تھے تو سب سے پہلے انہوں نے بلوچوں سے ہونے والی زیادتیوں پر بطور صدر پاکستان معافی مانگی تھی اور آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کیا تھا جو بہتری کی جانب پہلا اور مثبت قدم تھا مگر زرداری دور حکومت میں بلوچستان پیکج پر عمل درآمد نا ہوسکا۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی پانچ سالہ دور اقتدار میں بلوچستان کو نظر انداز کیا اور اپنی ساری توجہ صرف پنجاب پر ہی مرکوز رکھی۔نواز لیگ نے جتنا بجٹ میٹرو بس پر لگایا تھا بلوچستان کا بجٹ اس سے بھی کم ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے عوام احساس محرومی کا شکار ہیں۔ گوادر میں سی پیک پر تیزی سے کام جاری ہے مگر گوادر کی مقامی آبادی کے پاس پینے کا پانی ہی نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو انکے ساحل اور وسائل پر حق نہیں دیا گیا۔ بلوچستان کے نام پر لئے گئے پیسے سے دوسرے صوبوں میں پاور پلانٹ ،ٹرینیں ،سڑکیں بن گئیں لیکن بلوچستان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ الیکشن کا وقت قریب آ پہنچا ہے اب بلوچستان کی عوام کو ایسے امیدواروں کو منتخب کرنا چاہئے جو ایوان میں پہنچ کر ان کے حقوق کی جنگ لڑ سکیں اور انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرسکیں۔ دوسری طرف گزشتہ چند برسوں کے دوران کمیونی کیشن ٹیکنالوجی یا مواصلاتی رابطوں کی تیکنیک نے بہت تیزی سے ترقّی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اتنی حیرت نہیں ہوتی، جتنا اس کی ترقّی کی رفتار کے بارے میں سوچ کر انسان حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ اب نہ صرف رابطے کی رفتار تیز ترین ہو گئی ہے، بلکہ بہ یک وقت کئی افراد کے درمیان رابطوں کا انداز بھی بہت سہل ہوگیا ہے۔ اب گھنٹوں ہی کے نہیں، بلکہ ہفتوں اور مہینوں کے کام بھی منٹوں میں ہو جاتے ہیں اور چند لمحوں میں بصری مواد دْنیا کے کسی بھی حصّے میں منتقل ہوسکتا ہے۔ اور یہ سب سوشل میڈیا کے رہینِ منّت ہے، جسے اگر موجودہ دَور کی ایک ’’کرامت‘‘ کہا جائے، تو بے جا نہ ہو گا کہ یہ تبدیلی کوئی بہت زیادہ پْرانی بھی نہیں۔ 2000ء میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دْنیا بَھر میں مواصلاتی اور بصری رسائی کے ذرایع اتنے سہل، جدید اور تیز رفتار ہو جائیں گے۔ 2004ء میں فیس بْک نے اپنی جانب توجّہ مبذول کروائی، تو2005ء میں یو ٹیوب، 2006ء میں ٹویٹر اور 2010ء میں انسٹا گرام کی صورت توسوشل میڈیا نے پوری دْنیا کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ دْنیا بَھر میں سوشل میڈیا کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2017ء4 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق، پوری دْنیا میں 4.2ارب افراد فیس بْک استعمال کررہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق سوشل میڈیا پر مصروف رہنے والے افراد میں سے ہر فرد 24گھنٹوں میں سے مجموعی طور پر 135منٹس روزانہ فیس بْک پر صَرف کرتا ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد کا اندازہ 4.2ارب لگایا گیا ہے، جن میں سے 3.3ارب افراد ایسے ہیں، جنہیں سوشل میڈیا پر غیر معمولی طور پہ متحرک اور فعال شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں کہ جو تقریباً 12گھنٹے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔آج سوشل میڈیا کاروباری، سیاسی، سماجی، دفاعی اور حساس ترین معلومات کے حصول کا اہم اور موثر ترین ذریعہ بن چْکا ہے۔ مارکیٹنگ کا شعبہ سوشل میڈیا سے بھرپور استفادہ کر رہا ہے کہ یہ مطلوبہ اہداف تک رسائی کا تیز رفتار اور سستا ذریعہ ہے اور پھر ’’فیڈ بیک‘‘ بھی فوری طور پر مل جاتا ہے۔ اگر پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں سوشل میڈیا کے کردار کا سرسری سا جائزہ لیا جائے، تو اس کی کارکردگی اور خدمات کا دائرہ کار خاصا وسیع ہے۔ لہٰذا، سوشل میڈیا کے منفی پہلوؤں پر بات کرنے سے پیش تر اگر سیاسی جماعتوں کی انتخابی مْہم کے دوران اس کی افادیت کا ذکر کیا جائے، تو یہ زیادہ مناسب رہے گا۔ پاکستان کی سیاسی و انتخابی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ سوشل میڈیا اس دوران انتہائی ’’موثر اور بھرپور‘‘ کردار ادا کر رہا ہے۔ عام انتخابات 2018ء اس اعتبار سے 2013ء کے عام انتخابات سے قطعی مختلف ثابت ہوں گے کہ آج نتہائی اہم اور قدآور سیاست دان اسمارٹ فونز کے کیمروں کی زد میں ہیں اور وہ روایتی سیاست دان بھی، جو پانچ سال بعد اپنے حلقے کے ’’کمّی کمینوں‘‘، مزارعین، عقیدت مندوں اور ہاریوں کو اپنے درشن کرواتے تھے، تحکّمانہ لہجے میں اپنے انتخابی نشان کو ووٹ دینے کی ہدایت کرتے تھے اور اس موقعے پر ہاتھ باندھ کر کھڑے اْن کے مزارعے اطاعت کے انداز میں اپنا سَر مزید جْھکا دیتے تھے، اپنی انتخابی مْہم کے دوران انتہائی دشواریوں کا شکار ہیں، کیوں کہ ا?ج وہی کمّی کمین سَر اْٹھا کر اْن سے سوالات کررہے ہیں۔ اْن کے لہجے میں لجاجت، خوشامد اور اندازِ غلامانہ نہیں، بلکہ تلخی، جلال اور حق مانگنے کا جذبہ دکھائی دے رہا ہے۔ نتیجتاً بڑے بڑے قبائلی سردار اور وڈیرے اپنے ہی علاقے کے ’’کمّی کمینوں‘‘ اور دیگر نچلی ذات کے افراد کے سامنے بے بس نظر ا? رہے ہیں۔ ایسے میں اس سیاسی اشرافیہ کا بس نہیں چل رہا، وگرنہ وہ ماضی کی طرح اپنے مزارعین اور عقیدت مندوں کو اس جرا?تِ رِندانہ کا مظاہرہ کرنے پر سخت سے سخت سزا دیتے اور ان کے ساتھ پہلے جیسا ہی غیر انسانی سلوک کرتے۔ماضی میں اوّل تو ان مزارعین میں اتنی جرات ہی نہیں ہوتی تھی کہ وہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے سامنے سَر بھی اْٹھا سکیں اور اگر کوئی ایسا کرنے کی جرات بھی کرتا، تو موقعے ہی پر جاگیرداروں کے غنڈے اس کی ٹانگیں توڑ کر اسے عْمر بھر کے لیے معذور اور پورے علاقے کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا کرتے ، لیکن ا?ج صورتِ حال یہ ہے کہ ان کی اپنے حلقے میں ا?مد کے موقعے پر چند نوجوان اسمارٹ فونز کے کیمرے ا?ن کر کے پوری صورتِ حال کی منظر کشی کر رہے ہوتے ہیں اور چند ہی لمحوں میں تمام مناظر سوشل میڈیا اور پھر ٹی وی اسکرینز پر عام ہوجاتے ہیں۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور با اثر سیاسی اشرافیہ کے لیے اسمارٹ فونز کے یہ کیمرے اْن کے غنڈوں کی طاقت اور اْن کی کلاشنکوفوں سے کہیں زیادہ پْر اثر ہتھیار ہیں کہ جن کے لگے زخم پھر پورا پاکستان دیکھتا ہے اور ان کے سبب ہونے والی تحقیر و سیاسی ہزیمت کا گھاو? بھرنے کے لیے بھی ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔اپنے حلقے کے عوام کے ہاتھوں ہزیمت اْٹھانے والوں سیاست دانوں اور سیاسی رہنماؤں کی فہرست اب خاصی طویل ہو چْکی ہے۔ ان میں نمایاں تعداد پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ہے، جن سے ان کی 5سالہ کارکردگی کاحساب مانگا جا رہاہے۔ تاہم، پاکستان تحریکِ انصاف اس صورتِ حال سے اس لیے محفوظ ہے کہ اس کی حکومت صرف کے پی کے تک محدود رہی اور اسے ابھی تک پورے مْلک میں حْکم رانی کا موقع نہیں ملا۔ پنجاب کے جاگیردار، سندھ کے وڈیرے اور کئی دہائیوں سے اپنے ووٹرز کو حقیر اور غلام سمجھنے والے سیاست دان اب یہ سوچ کر حیران ہیں کہ اْن کی بچی کْھچی سے پیٹ بَھرنے، اْن کے رحم و کرم پر زندہ رہنے والے آج اْن کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمّت کیسے کر رہے ہیں؟ میلے کْچیلے ، پسینے کی بْو سے متعفّن کپڑوں میں ملبوس ، گَرد سے اٹے پیروں میں ٹوٹی چپلیں پہنے ان لوگوں کو سوالات کرنے کی جرات کیسے ہو رہی ہے، انہیں یہ شعور کس نے دے دیا؟ ہو سکتا ہے کہ یہ موضوع زیادہ طویل اور متنازع ہو جائے۔ تاہم، سوشل میڈیا کو اس بات کا سہرا ضرور جاتا ہے کہ اس نے اس قسم کے واقعات کی تشہیر کا ذریعہ بن کرعوام النّاس میں شعور ہی نہیں، جرات و ہمّت بھی پیدا کی ہے۔ اگر اس کا استعمال اسی مثبت انداز سے ہوتا رہے، توکیا ہی اچھا ہو کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد نے اسے مخالفین کی کردار کْشی اور تذلیل کا ذریعہ بھی بنا رکھا ہے اور وہ جب چاہیں کسی کی بھی پگڑی اْچھال دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی عریاں سوچ سے کسی کی بھی عزّت محفوظ نہیں۔ خیال رہے کہ سوشل میڈیا کوئی خود کار نظام نہیں کہ جو از خود ذہنی پستی اور غلاظت کی اْلٹیاں کرتا رہے، بلکہ اس کے پیچھے بیمار ذہنیت کے حامل افراد کی ایک فوج ظفرِ موج ہے، جو محض اپنے کتھارسس یا ذہنی آسودگی کے لیے اپنے ذہنوں میں جنم لینے والی آلودگی سے اس میڈیا کو بھی آلود ہ کرتی رہتی ہے،تو کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں!! لیکن سوشل میڈیا میں دوسرے صوبوں کے انتخابات کے حوالے جو خبریں اور ویڈیو کلپس دیکھنے کو مل رھے ہیں وہ کردار سوشل میڈیا بلوچستان میں ادا نہیں کررہا ہے شاید اب بھی لوگ سرداروں نوابوں اور خانوں سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں یہ بڑے لوگ ان تک پہنچ جائیں اور کوئی مسئلہ نہ کھڑا کردیں خصوصا بلوچستان کے صحافی بھی سوشل میڈیا پر انتخابی سرگرمیوں سے متعلق خبریں اور ویڈیوز شئیر کررھے ہیں اگر کہیں انتخابی اتحاد ہوجائے تو اسکی خبریں بھی آجاتی ہیں لیکن ان انتخابی اتحادوں کے پیچھے کیا کہانی ہے وہ سامنے نہیں آتی جسکی واضح مثال خضدار میں مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی کا غیر فطری اتحاد ھے بلوچستان عوامی پارٹی کے کرتا دھرتا وہی لوگ ہیں جنہوں نے سابق وزیراعلی بلوچستان اور مسلم لیگ ن کے صدر نواب ثناہ اللہ زہری کو وزیراعلی کے عہدے سے ہٹانے کیلئے کردار ادا کیا لیکن اب خضدار میں دونوں پارٹیوں نے اتحاد کرلیا اسکا پس منظر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آنا ممکن نہیں لیکن سوشل میڈیا پر ضرورآنا چاہئے تھا لیکن سوشل میڈیا اس حوالے سے مکمل طور پر خاموش ھے سوشل میڈیا پاکستان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے نمبر لے گیا ہے کروڑوں لوگ سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ اداروار میں منتخب ہونے والے امیدوار جب حلقوں میں جارہے ہیں تو انکے حلقے کے لوگ کسطرح انکی کلاس لے رھے ہیں ملک کے دیگر حصوں میں اسطرح کے واقعات سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے لیکن اس معاملے میں بھی بلوچستان میں سوشل میڈیا کمزور ہے مگر مایوس نہیں ہونا چاہئے امید ہے کہ سوشل میڈیا اس حوالے سے رفتہ رفتہ اپنا فعال اور متحرک کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائے گا سردست ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بحیثیت قوم پرنٹ ،ا لیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو عوامی شعور و آگاہی کا موثر ذریعہ بناتے ہوئے اس کے توسط سے معاشرتی مسائل کے حل کے لئے ان ذمہ داریوں کا احساس و ادراک کریں جن سے مزید چشم پوشی ہمارے لئے نیک شگون نہیں ہوسکتی


تحریر اقصٰی میر ۔