ٹیکنالوجی اور خواتین

Illustrator Mehak Tahir

By Khalida Niaz

خیبرپختونخوا کی خواتین بھی اب جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کررہی ہیں

خیبرپختونخوا کی خواتین کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کے لیے ڈیجیٹل سکلز منصوبہ

آجکل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے اور یہ جدید ٹیکنالوجی وقت کی ضرورت بھی ہے کیونکہ اب سب چیزیں اور کام آن لائن ہوتے جارہے ہیں۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور دنیا کے ساتھ کامیابی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی نئے ڈیجیٹل سکلز سیکھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس تیز رفتار زندگی میں اب ناگزیر ہوچکا ہے کہ خواتین بھی مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کرم کریں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی اب خواتین زندگی کے مختلف شعبوں میں نہ صرف کام کررہی ہیں بلکہ اپنا لوہا بھی منوا رہی ہیں لیکن ان کو اس طرح مواقع نہیں مل رہے جس طرح ملنے چاہیئے تاہم مختلف اداروں سمیت حکومت بھی کوشش کررہی ہے کہ وہ خواتین کو نئے سکلز دے تاکہ وہ بھی کام کرسکیں۔

خیبرپختونخوا حکومت کے آئی ٹی بورڈ نے بھی (انکلوژن آف وومن ان دی ڈیجیٹل اکانومی) کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت صوبے کی 3000 خواتین کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ ، گرافک ڈیزائننگ، ورڈ پریس ڈیزائننگ، کانٹینٹ رائٹنگ اور ڈیجیٹل پروڈکٹیویٹی ٹولز میں اس قابل بنایا جارہا ہے کہ وہ اپنا کام شروع کر سکیں۔

تین ہزار خواتین کو ڈیجیٹل سکلز دیئے جائیں گے

ڈاکٹر صاحبزادہ علی محمود خیبرپختونخوا انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ منیجینگ ڈائریکٹر نے اس حوالے سے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت خیبرپختونخوا کی 3 ہزار خواتین کو ڈیجیٹل سکلز فراہم کئے جارہے ہیں اور اب تک 2800 خواتین کو یہ سکلز دیئے جاچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام ابھی جاری ہے اور اس پروگرام کے تحت ٹریننگ لینے والی خواتین اب مختلف اداروں میں فری لانسنگ کررہی ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ ڈاکٹر صاحبزادہ علی محمود نے کہا کہ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تربیت حاصل کرنے والی قریباً 13 فیصد خواتین اب عملی کام کررہی ہیں اور معاشی طور پر خودمختار ہورہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو ڈیجیٹل سکلز سکھانے کا پروگرام خواتین کے لیے مختص پروگراموں کا ایک حصہ ہے کیونکہ خواتین ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں

 اور انکو گھر کے اندر روزگار کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ خواتین کو ڈیجیٹل سکلز سکھائے جائیں تاکہ وہ پھر گھر کے اندر ہی مختلف اداروں کے ساتھ آن لائن کام کرسکیں۔

صباحت کامیابی سے فری لانسنگ کررہی ہے

منصوبے سے استفادہ حاصل کرنے والی صباحت کا کہنا ہے کہ انہوں نے کے پی آئی ٹی بورڈ سے گرافک ڈیزائننگ کا کورس مکمل کیا  جس کے بعد اب وہ کامیابی سے فری لانسنگ کا کام کررہی ہے۔ 

جہانگیرہ خیر آباد سے تعلق رکھنے والی صباحت نے بتایا کہ کے پی آئی بورڈ کے اس منصوبے کے بارے میں انکو سوشل میڈیا فیسبک کے زریعے پتہ چلا تھا اس کے بعد اس کیلئے اپلائی کیا، ” جب میں نے اپلائی کیا، دو مہینے کے اندر داخلے کا ای میل آیا، یہ کورس آن لائن تھا، مجھے بہت مزہ آیا تھا، کوآرڈینیٹر مدیحہ بہت اچھی تھی، لائیو سیشن ہوتے تھے، ہمیں بہتر طریقے سے کورس پڑھایا جاتا تھا ہوم ورک دیا جاتا تھا، معلوماتی تھا،اور ہمیں لنکس دیئے گئے کہ کن کن سوفٹ ویئرز پر کام کرنا ہے، اب میں بطور فری لانسر کام کر رہی ہوں’ ‘

انہوں نے کہا کہ وومن ایمپاورمنٹ کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اب خیبر پختونخوا میں تعلیم کا بہت رحجان ہے جو پہلے نہیں تھا، اب لوگ اپنی بچیوں کو تعلیم دلا رہے ہیں۔ اگر ٹیکنالوجی پر بات کی جائے تو اب سب کچھ ڈیجٹلائز ہو چکا ہے، اگر ہم فارم فل کرتے ہیںے تو ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے فل کرتے ہیں اگر ہم بچوں کا داخلہ کرتے ہیں تو اب سکولوں کو جانے کی بجائے گھر سے کرتے ہے کووڈ سے تعلیم متاثر ہو رہی ہے تو ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے آن لائن کلاسز لیتے ہیں، یہ ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوا ہے یہ سب ڈیجٹلائزیشن ہے، ڈیجیٹل دور ہے، بچوں کو گھر بیٹھ کر پڑھایا جا رہا ہے، پہلے انٹرنیٹ کا کسی کو پتہ نہیں تھا کہ انٹرنیٹ کیا ہے، اب بہت سارے سافٹ وئیر آگئے ہیں جس کو لوگ اور خصوصی طور پر نوجوان طبقہ زیادہ استعمال کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جتنا کام ابھی تک کیا ہے تو بہت کمائی کی ہے، لیکن وہ فارغ ٹائم میں کرتی ہیں کیونکہ پیشے کے لحاظ سے وہ استاد ہیں۔ ‘یہ میرے پراجیکٹ اور کام پر منحصر کرتا ہے کہ میں کتنا کماتی ہوں، اتنی کمائی بھی ہوتی ہے کہ 10 ہزار بھی کما لیتی ہوں کبھی کم ہوتی ہے، اس کا مخصوص کوئی شرح نہیں ہے کبھی 15 دن میں میں 15 ہزار تک پہنچ جاتی ہوں’ صباحت نے بتایا۔

آجکل ڈیجیٹل دور ہے

صباحت نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کو چاہیے کہ اپنے آپ کیلئے کچھ نہ کچھ کریں کریں اور آجکل ڈیجیٹل دور ہے تو اس میں وہ آسانی کے ساتھ گھر بیٹھ کر کماسکتی ہے کیونکہ ایک باپ یا بھائی کب تک کماکردیں گے اور ویسے بھی مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے تو ضروری ہے کہ گھر کے مرد اور خواتین مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ وہ آگے جانا چاہتی ہیں اور چاہتی کہ گھر والوں کو سپورٹ کریں کیونکہ انکے گھر والوں نے بھی انکو کافی حد تک سپورٹ کیا ہے۔

ڈاکٹر صاحبزادہ علی محمود کے مطابق ہمارے تمام محکموں میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہے جس کی کلچر سمیت بہت ساری وجوہات ہیں تو ڈیجیٹل سکلز لینے سے وہ خواتین بھی آسانی سے کام کرسکتی ہیں جن کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی بس انکو انٹرنیٹ اور لیپ ٹاپ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ گھر بیٹھے پیسے کما سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی خواتین کو بااختیار بنانے لیے کئی ایک منصوبے ہیں جن میں ایک سیڈ فنڈ بھی ہے جس کے تحت صوبے کے 30 ایسے سٹارٹ اپس کو مالی معاونت فراہم کی جائے گی جس کی سربراہی اور دیکھ بھال کوئی خاتون کر رہی ہو ۔ اس منصوبے میں سٹارٹ اپس کی نوعیت کے مطابق 5000 ڈالرز سے لیکر 15000 ڈالرز تک مالی معاونت دی جائی گی۔ ان سارے منصوبوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ صوبے کی خواتین کو مالی اور معاشی طور پر با اختیار اور خوشحال بنایا جاسکے۔

وومن لیڈ اسٹارٹ اپ انکیوبیشن منصوبہ

کے پی آئی ٹی بورڈ کے ایم ڈی کے مطابق وومن لیڈ اسٹارٹ اپ انکیوبیشن منصوبے میں کل 18 خواتین سربراہ اور انکی ٹیمز کو چھ مہینوں کی اینٹنسیوو ٹریننگ دی گئی۔ تربیت مکمل کرنے والی خواتین اور انکی ٹیمز نے چھ مہینوں تک انکیوبیشن سنٹرز میں عملی کام کیا۔ منصوبے کے تحت ہر ٹیم ممبر کو 30000 روپے ماہانہ وظیفہ بھی دیا گیا۔ ان تمام سٹارٹ اپس نے اب تک تقریباً 1200 ڈائریکٹ اور انڈائریکٹ جابز مواقع پیدا کیے ہیں اور ریونیو جنریشن میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والی20 سالہ نور الہدیٰ بھی ان تین ہزار خواتین میں شامل ہیں جن کو کے پی آئی ٹی بورڈ نے اس منصوبے کے لیے منتخب کیا۔ نور الہدیٰ نے بتایا کہ انہوں نے بھی کورس کے حوالے سے فیس بک پہ ایک ایڈ دیکھا تھا جس کے بعد انہوں نے اپلائی کیا اور منتخب ہوگئیں، انہوں نے ورڈ پریس کا کورس مکمل کیا ہے اس منصوبے کے تحت اور انکی کلاسز کورونا وائرس کی وجہ سے آن لائی ہوئی لیکن اس سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔

آج کل نوکری بہت مشکل سے ملتی ہے

نور الہدیٰ نے کہا کہ آج کل نوکری بہت مشکل سے ملتی ہے تو ایسے میں آن لائن کورسز سے خواتین خاص طور پر فائدہ اٹھا سکتی ہیں کیونکہ آن لائن کورس کے بعد وہ مختلف اداروں کے ساتھ فری لانسنگ کرسکتی ہیں اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کے پی آئی ٹی بورڈ کے اس قدم کو بہت سراہا اور کہا کہ اس طرح کے منصوبوں سے خواتین معاشی طور پر خودمختار ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کے پی آئی ٹی بورڈ کے اساتذہ نے انکے ساتھ بہت محنت کی جس کی وجہ سے آج بااعتماد طریقے سے کام کرکے اپنا لوہا منوا سکتی ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نور الہدیٰ نے کہا کہ آجکل دنیا بہت تیز ہوگئی ہے اور سب کچھ ڈیجیٹل ہورہا ہے جس سے خواتین بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں کیونکہ خواتین نہ صرف اپنے علاقے اور ملک میں کام کرسکتی ہیں بلکہ انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی و سکلز کا استعمال کرکے پوری دنیا کے اداروں کے ساتھ منسلک ہوکر پیسے کما سکتی ہیں۔

بھائی کو دیکھ کر میرا بھی جدید ٹیکنالوجی کو سیکھنے کا دل کرتا تھا

انہوں نے کہا کہ ان کا بھائی کمپیوٹر وغیرہ پہ کام کرتا ہے تو انکی بھی خواہش تھی کہ وہ بھی جدید سکلز سیکھ لیں اور جب انکو کے پی آئی ٹی بورڈ کے حوالے سے پتہ چلا تو انکو بہت خوشی ہوئی کہ وہ جو چاہتی ہیں اب سیکھ لیں گی۔ انہوں نے کہا تین مہینے کا کورس کرنے کے بعد بندہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ فری لانسنگ کرکے ویب ڈیزائن کرسکیں۔

شفیق گگیانی جو ایک سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ویب ڈیویلپر بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ آجکل سب کچھ ڈیجیٹل ہوگیا ہے اور اس میں نئی نئی چیزیں بھی آرہی ہے تو خواتین کے لیے بھی بہت ضروری ہوگیا ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے روشناس ہوسکیں کیونکہ ہمارے ملک کی قریباً 52 فیصد آبادی خواتین پرمشتمل ہے جو معاشرے کا ایک اہم حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ معلومات حاصل کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ خواتین کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہو اور اس حوالے سے انکو معلومات بھی ہو۔

خواتین سکلز سیکھ کر کاروبار کی جانب آسکتی ہیں

شفیق گگیانی کے مطابق آج کل کاروبار میں بھی ٹیکنالوجی کا بڑا عمل دخل ہے تو خواتین سکلز سیکھ کر کاروبار کی جانب بھی آسکتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈیجیٹل سکلز لے کر خواتین نہ صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی بلکہ ہر شعبے میں اس سے استفادہ حاصل کرسکتی ہیں کیونکہ چاہے وہ ڈاکٹر ہوں، انجنیئر ہوں یا کسی اور شعبے سے منسلک ہوں تو وہ نئی نئی چیزیں اور سٹڈیز کے حوالے سے جان سکتی ہیں کہ دنیا میں کیا کچھ نیا ہورہا ہے اور وہ کیسے اس کو بروئے کار لاسکتی ہیں۔

شفیق گگیانی کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں خواتین کو گھروں کے اندر رہنے اور باہر نہ نکلنے پر پابندی نہیں ہوتی اور یہ اچھی بات نہیں ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ خواتین کو باہر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ خواتین بھی معاشرے کا اہم حصہ ہیں اور انکو بھی کام کرنے کے ویسے مواقعے اور حقوق ملنے چاہیے جو مردوں کو حاصل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین یہ کرسکتی ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات حاصل کرکے سکلز لیں اور پھر اس کو بروئے کار لاکر گھر بیٹھے ہی فری لانسنگ کریں یا کسی ادارے کے ساتھ آن لائن کام کریں۔

جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اب لوگ زیادہ تر کام آن لائن سرانجام دے رہے ہیں چاہے وہ کپڑے کا کاروبار ہو، بوتیک ہو، جیولری کا سامان ہو یا کوئی اور بزنس۔ کورونا وائرس نے زندگی کے ہرشعبے کو متاثر کیا ہے، کورونا وائرس کو قریباً دو سال ہوگئے ہیں اور اس کا خطرہ اب بھی موجود ہے جس کی وجہ سے دنیا میں لاکھوں لوگوں نے اپنے کاروبار کو آن لائن کردیا ہے۔ پاکستان میں بھی کافی خواتین اب آن لائن طریقے سے اپنا کاروبار چلارہی ہیں کیونکہ مہنگائی کے اس دور میں کوئی بھی زیادہ دیر تک کاروبار کو بند نہیں رکھ سکتا۔

یوٹیوب سے اپنے سکلز کو مزید بہتر بنایا: لیلیٰ

نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی لیلیٰ جو ایک گرافک ڈیزائنر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہیں جب چند سال پہلے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے حوالے سے پتہ چلا تو انہوں نے پشاور میں ایک خاتون سے گرافک ڈیزائننگ میں تربیت لی اور اس کے بعد خود یوٹیوب کا استعمال کرکے اپنے سکلز کو مزید بہتر بنایا۔

‘ جب میں نے گرافک ڈیزائننگ کا کام سیکھا تو اب باقاعدہ طور پر میں مختلف اداروں اور کلائنٹس کے لیے لوگوز وغیرہ بناتی ہوں اور گھر پہ ہی پیسے کمارہی ہوں، لڑکیوں کو لگتا ہے کہ پیسے صرف نوکری کرکے ہی کمائے جاسکتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اب دنیا بدل گئی ہے اور لڑکیاں گھرپہ ہی فری لانسنگ کرکے پیسے کماسکتی ہیں’ لیلیٰ نے بتایا۔

سافٹویئر انجینیئرنگ میں بی ایس کرنے والی لیلیٰ نے لڑکیوں اور خواتین پر زور دیا کہ اگر وہ گھر سے باہر جاکر کام نہیں کرسکتی یا انکو اجازت نہیں ملتی تو وہ آن لائن کورس کرکے فری لانسنگ شروع کردیں۔