ڈیجیٹل دور کے خواجہ سرا

Illustration by Mehak Tahir

By Sidra Saeed

اللہ تعالیٰ نے  انسانوں میں مرد اور عورت کے علاوہ ایک تیسری جنس خواجہ سرا کو بھی  بنایا  ۔ ہمارے معاشرے نےمرد اور عورت کے وجود کو  تسلیم کر لیا لیکن خواجہ سرا آج بھی اپنی شناخت کو منوانے کی تگ  و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں خواجہ سراؤں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، محکمہ شماریات کی مردم شماری کی رپورٹ 2017 کے مطابق پاکستان میں   10 ہزار 4 سو 18خواجہ سرا رجسٹرڈ ہیں  اگرچہ پاکستان خواجہ سرا سوسائٹی، جو خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے، پاکستان مردم شماری کی اس رپورٹ کو مسترد کرتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ ملک میں 4 لاکھ سے زائد آبادی ہے۔

یوں تو وقت کے ساتھ لوگوں میں شعور بڑھ رہا ہے اور وہ اس  تیسری جنس کو معاشرے کا  فرد قبول بھی کررہے ہیں  لیکن پھر بھی ابھی تک خواجہ سرا ء  اپنے مکمل حقوق حاصل نہیں کرسکے ہیں۔پہلے ہی معاشرتی پسماندگی  اور تعلیم کی کمی کا شکار  یہ طبقہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے کمزور دیکھائی دیتا تھا پر اب جب سے کسی حد تک معاشرے کے بدلتے رویو ں اور تعلیم کی روشنی نے ان کو شعور دیا ہے  اس  بیداری نے انہیں اپنے  حقوق  کے حصول کی جنگ میں کامیاب کیا ہے۔

زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے خواجہ سراؤں نے مختلف ہنر سیکھنا شروع کر دیے۔ خود کی جدید دور سے ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے خواجہ سرا  ڈیجیٹل دور کی اہمیت کو جان رہے ہیں۔ اپنی بہترین کارکردگی کے باعث

خواجہ سرا مختلف میدانوں  میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ سرکاری اور نجی اداروں میں نوکریوں کی سہولت کے باوجود

اس طبقے کو ابھی بھی معاشرے میں وہ مقام نہ مل سکا  جو کہ اس کا حق ہے۔معاشرے کی اکثریت اب بھی خواجہ سراؤں کو تیسری جنس کے طور پر اپنے مدمقابل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جس کے باعث آئے روز ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔

آج کل جس طرح سے   جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت عام ہو گیا ہے،  سب ہی اس سے استفادہ حاصل کر رہےہیں۔ آن لائن ڈیجیٹل کلچر اور سوشل میڈیا آج  کےنوجوانوں کے لیے لازم و ملزوم بن گیا ۔ سوشل میڈیا   دنیا بھر میں ایک فوری دوطرفہ مواصلاتی  ذریعہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔یہ ایک شخص کی روز مرہ زندگی کا اہم حصہ بن گیا ہے۔

معاشرے کے دوسرے افراد کی طرح  خواجہ سرا  بھی سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں ۔معا شرے کے ہاتھوں پسے ہوئے  خواجہ سرا بھی  جدید ٹیکنالوجی اور سماجی رابطوں کی ویب سا ئٹس کے ذریعے اپنے خاندان ، لوگوں اور مداحوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے  ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔

مشاہدے سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر خواجہ سرا فیس بک ، ٹک ٹاک ، سنیپ چیٹ ، ٹوئیٹراور وٹس ایپ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر سوشل میڈیا کے استعمال پر روزانہ تین گھنٹے سے زائد کا وقت  گزارتے ہیں اور ان میں سے اکثریت سوشل میڈیا کو پورے ہفتے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فیس بک پر سوشل میڈیا گروپس میں بھی شامل ہیں  تاہم خواجہ سرا میں سوشل میڈیا کے استعمال کا مقصد زیادہ ملنسار بننا اور سماجی شناخت پیدا کرنا ہے۔ یہ بھی دیکھا  گیا ہے کہ خواجہ سرامختلف ویڈیوز دیکھتے ہیں ،تصاویر اور پوسٹس شیئر کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں۔   وہ سوشل میڈیا پر سماجی واقعات ، خبروں اور موجودہ حالات کے حوالے سے بھی معلومات حاصل کرتے ہیں ۔ سوشل میڈیا  کے ذریعے سیاسی رہنماؤں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرتے ہیں ۔اس سب سے بڑھ کر  اب جب بھی  انہیں  اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو  وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا بھی انتخاب کرتے ہیں۔

خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اب ڈھکی چھپی نہیں رہتی۔ اگر کہیں کسی پر ظلم ہو فوراً اس کی وڈیو  سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہو جاتی ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے میں خواجہ سرا کمیونٹی ڈیجیٹل ہوتی جارہی ہے پہلے کوئی احتجاج  منعقد کیا جاتا تھا جس کو  کبھی کبھار ٹی وی چینلز کوریج دیتے تھے ،   اگر کسی خواجہ سرا پر تشدد ہو اوراس کا کوئی ثبوت نا ملے تو  کیس فائل نہیں ہوتا تھا لیکن اب خواجہ سرا کمیونٹی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والی کسی بھی نا انصافی یا تشدد کو ریکارڈ کر لیتے ہیں یا سوشل میڈیا پہ جا کر اسی وقت تمام لوگوں تک بات پہنچا دیتےہیں اور یہی کلپس میڈیا پہ چلنے کے ساتھ ساتھ مقدمہ درج کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔   احتجاج بھی  اگلے ہی لمحے پرہر ایک کی سوشل میڈیا وال پر ہوتا ہے۔

دو ماہ قبل کراچی پریس کلب کے باہر بھی  خواجہ سرا ؤں کے احتجاج کو سوشل میڈیا پر خوب وائرل گیا ۔ یہ احتجاج  خواجہ سرا شہزادی کی سالگرہ کے موقعے پر مورتوں اور بیلوں کے درمیان ہونے والے تصادم کے سلسلے میں کیا گیا۔  کامیڈین ڈاکٹر معیز بھی  اس تصادم کی زد میں آئے۔ جو وہا ں سالگرہ میں شرکت کیلئے گئے تھے۔  شمائلہ بھٹی کے نام سے مشہور کامیڈین ڈاکٹر محمد معیز نے خود  احتجاج میں بھی شرکت کی اور سوشل میڈیا پر بھی اس کا خوب پرچار کیا ۔  خواجہ سرا ؤں کےمطالبات ہیں کہ   “ہمیں بھی پاکستانی شہری کے حقوق دیے جائیں ہمیں تعلیم دی جائے۔ ان کے خلاف کاروائی کی جائے جو خواجہ سراؤں کو ہراسگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کو صحت کی سستی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ایک ایماندار زندگی گزارنے کے لیے ہمیں باعزت روزگار فراہم کیا جائے۔ جیسے دیگر دنیا میں خواجہ سرا کمیونٹی کے ساتھ عزت اور وقار کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ویسا ہی رویہ ہم پاکستانیوں سے چاہتے ہیں۔”

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے  مختلف تنظیمیں بھی  سوشل میڈیا  پر سر گرم نظر آتی  ہیں  جن میں  ‘ ایشیاء پیسفک ٹرانس جینڈر نیٹ ورک ‘ اور ‘ ٹرانس جینڈر  رائٹس کنسلٹینٹس پاکستان’ بھی شامل ہیں  جنھوں نے  سوچ کو بدلنے اور خواجہ سراؤں کے حوالے سے مثبت رویے معاشرے میں پروان چڑھانے کی کوشش کا آغاز کیا ہے۔

اسی طرح سوشل میڈیا  ایپ فیس بک پر  منٹونیت۔ایک امید کے نام سے ایک  گروپ ہے جس کے موڈریٹر  ایک خواجہ سرا   چنٹو  صدیقی ہیں جبکہ اس گروپ کے باقی ممبر مرد اور خواتین ہے۔ اس گروپ میں  علم و ادب کی بات ہوتی ہے ۔ مختلف موضوعات پر اپنا نظریہ پیش کیا جاتا ہے۔ سب ایک دوسرے کی بات کو سنتے اور سمجھتے ہیں۔

اسلام آباد کے 22 سالہ نوجوان چنٹو صدیقی   بھی  سوشل میڈیا  کا استعمال نہ صرف اپنے دوست احباب کے ساتھ رابطے کیلئے کرتے ہیں بلکہ اپنے خیالات کی رونمائی کیلئے بھی کرتےہیں۔ چنٹو   کہانیاں لکھتےہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ  وہ چاہتے ہیں کہ  لوگ  ان کی  ذات کے بارے میں جان سکیں ، جان سکیں کہ چنٹو صدیقی کون ہے، ٹرانس کون ہیں کیسے لوگ ہیں۔

چنٹو نے سوشل میڈیا  کو اپنا پیغام  دوسروں تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ سمجھا ہے۔ انہوں نے    راولپنڈی میں ایک خواجہ سرا   , جن کی ذیابطیس کی وجہ سے ٹانگ کٹ گئی تھی ۔  ان کی مدد کیلئے  سوشل میڈیا پر مہم   بھی چلائی ۔ اس مہم میں ان کی پوری ٹیم  نے کام کیا ،اور  بہت سے لوگوں نے ان مدد کی ۔علاج کے علاوہ ان کیلئے راشن کا بھی انتظام ہوا، اور وہ کافی کامیاب مہم تھی۔  چنٹو کہتے ہیں  کہ سوشل میڈیا  پر بھی ہر طرح کے لوگوں  سے واسطہ پڑتا ہے   ،  جیسے جیسے ٹیکنالوجی بڑھتی جارہی ہے لوگ جانتے جا رہے ہیں۔  جو پردے حائل تھے ہماری ذات پر وہ سب ہٹتے جارہے ہیں لوگ جان پا رہے ہیں کہ ہم    کون ہیں۔ وہ  کہتے ہیں کہ دوسرا  ہمیں یہ بھی فائدہ ہے کہ    ہم لوگ  سوشل میڈیا کی مدد سے کھل کر سامنے آرہے ہیں ۔ اپنا کلچر شو کررہے ہیں ، ہم  اپنے وڈیو پیغامات بھی اپ لوڈ کرتے ہیں   جس کی وجہ سے لوگ  ہمیں جان رہے ہیں ہمارے احساسات کو سمجھ رہے ہیں سوشل میڈیا   ہمارے لئے مددگارثابت ہوا ہے کیونکہ جب لوگ ہمیں جانتے ہیں تو ہماری مشکلات کم ہوتی ہیں ، وہ کہنےلگے کہ دیکھو! جب دوریاں ہوتی ہیں  تو غلط فہمیاں زیادہ ہوتی ہیں جب قریب ہوتا ہے انسان تو غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں ۔ یہی بات ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا نے ہمارا بہت ساتھ دیا  ہمیں دوسروں کے قریب کیا   ۔ آج  کل کی نوجوان نسل ہمیں اپنا رہی ہے، لوگوں کے سوچنے کے زاویے تبدیل ہورہے ہیں۔  پھر بھی سوشل میڈیا پر کچھ لوگ ملے ہیں جو ہمیں برا بھلا کہتے ہیں۔ہماری تصاویر کو استعمال کرتے ہیں ۔

بدقسمتی سے،ارتقائی منازل طے کرنے  کے باوجود  خواجہ سراؤں کو ہراسگی کا سامنا رہتا ہے۔انہیں   سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی  عدم برداشت اور ٹرانس فوبیا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان سے تضحیک آمیز گفتگو بھی کی جاتی ہے کہ جیسے وہ انسان ہی نہ ہوں۔

خواجہ سراؤں کی تضحیک !  ان لفاظ کے ساتھ ایمان علی کا وہ انٹریو یاد آگیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “وہ اپنی سیلفی اس لیے نہیں لیتیں کہ انہیں اپنا آپ اچھا نہیں لگتا اور جب وہ موبائل میں خود کو دیکھتی ہیں تو انہیں  لگتا ہے کوئی خواجہ سرا کھڑا ہے۔ایمان علی کا یہ بیان بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آیا ۔ خواجہ سرا کمیونٹی کی طرف سے بھی سوشل میڈیا پر خوب احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے دن رات کوشاں پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر لیکچرار  عائشہ مغل  نے  اس بیان پر ایمان علی کو آڑے ہاتھو ں لیا  اور جواب میں کہا کہ  اگر آپ خود بدصورت ہیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ، بدصورتی کو خواجہ سراؤں سے نا منسلک کیا جائے خواجہ سرا ہمیشہ سے خوبصورت ، طاقت ور اور کامیاب انسان ہیں “ اس بیان کے ساتھ عائشہ  مغل کا ٹوئیٹر  پر  ٹاپ ٹرینڈ بھی  بنا ۔   پاکستانی خواجہ سرا ماڈل کامی سڈ نے  انسٹاگرام پر ایمان علی کے بیان کو اپنی کمیونٹی کی توہین قرار دیا۔

چنٹو صدیقی نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل  لاہور کے  رہائشی خواجہ سراوں کی وڈیوز کو سوشل میڈیا پر  وائرل کردیا گیا۔ جہاں ان کی ٹرولنگ کی گئی  ۔ اس تضحیک آ میزرویے سے وہ خواجہ سرا ذہنی اذیت کا شکار ہوگئے۔ انہیں سائبر کرائم میں رپورٹ کروانے کے طریقہ کار کا بھی نہیں پتا تھا اس لئے وہ شکایت بھی درج نہ کروا سکے۔

مشاہدے میں ایک اور بات آئی  عموماً جن خواجہ سرا کو سائبر کرائم کی رپورٹ درج کروانے کا طریقہ کار پتا بھی ہو وہ بھی رپورٹ کروانے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ مزید ذہنی اذیت اٹھانا نہیں چاہ رہے ہوتے ۔

پچھلے دنوں فیس بک پر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے خواجہ سرا فیاض اللہ فیضی   کو ان کا حق دلانے کیلئے ایک مہم چلی۔ فیضی نے   اردو لیکچرار کیلئے پنجاب پبلک سروس کمیشن   کا امتحان دینے کیلئے  درخواست دی لیکن ان کی درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا  کہ یہ سیٹ صرف مرد اور خواتین کیلئے ہے۔ فیضی یہ کیس لے کر عدالت گئے ساتھ فیس بک پر بھی بھرپور طریقے سے مہم چلائی گئی۔ نا صرف  عدالت  نے فیضی کے حق میں  فیصلہ دیا  بلکہ سوشل میڈیا پر  بھی فیضی کے اس اقدام کی خوب حمایت کی گئی۔

ڈیجیٹل میڈیا کی جانی مانی شخصیت  یو ٹیوب  چینل ” ٹی سی ایم”  کےپر وگرام   “Naked Truth Ft.Julie” کی   اینکر خواجہ سرا جولی بھی ان میں سے ایک ہے جنہوں نے سوشل میڈیا کی اہمیت کو  جانتے ہوئے  اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے کیلے اس پلیٹ فارم کو چنا۔ اپنے ایک انٹرویو میں جولی بتاتی ہیں کہ     جب کوئی  بد معاش ہمیں  تنگ کرتے تھے  تو ٹی وی چینلز نہیں چلاتے تھے کیونکہ انہیں مارکیٹنگ کے حوالے سے ہمارے کونٹینٹ  میں مزا نہیں آتا تھا وہ کہتے ہیں یہ بکے گا نہیں۔ تو سوشل میڈیا پر جب میں نےیہی کونٹینٹ  میڈیا کو دیکھایا    تو اب  الیکٹرونک میڈیا  بھی دیکھانا شروع ہو گیا۔ 

مجموعی طور پر  ، سوشل میڈیا  کا بہترین طریقے سے استعمال خواجہ سرا کی زندگی میں مثبت تبدیلی لا نے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے  فوائد  اور خدشات کو سمجھنا  خود خواجہ سراؤں، ان کے والدین بلکہ ان کے حقوق کیلئے کام کرنےوالوں کیلئے بھی  ضرور ہے تا کہ وہ جان سکیں کے اس کو  بہتر انداز میں کیسےاستعمال کر تے ہوئے وہ اپنی پہچان اور حق کو حاصل کرسکتے ہیں۔