ڈیجیٹل لٹریسی کے لیے

Illustration by Mehak Tahir

By Nuzhat Nisar

خواتین کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، پاکستان میں یہ  سہولت  ہر خاص و عام کو مہیا نہیں ہےاورخواتین کی ایک  بہت بڑی  تعداد تعلیم اور دیگر بنیادی حقوق کی طرح اس شعبے میں بھی خاندانی دباؤ یا پابندیوں  کا شکار ہونے کی وجہ سے اس حق سے محروم ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے راہ نما خواتین اور ادارے مصروف عمل ہیں  لیکن شاید یہ بات ہم سب کے لیے پریشانی کا سبب ہو  کہ خواتین کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جوانٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرنے کے باوجود معلومات سے محروم رہ جاتا ہے۔ یہ طبقہ خاص طور پر اُن خواتین پر مشتمل ہے جو اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں موجود ملٹی میڈیا کنٹینٹ (Multimedia Content)سُننے، سمجھنے اور پڑھنے سے محروم ہے اور اسی بنا پر اُن بنیادی معلومات اور اہم حفاظتی تدابیر سےناواقف ہے جن کا سامنا ان کو انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے ہوسکتا ہےجیسے سائبر ہراسمنٹ یا سوشل میڈیا بلیینگ/ ٹرولنگ وغیرہ۔  ایسی خواتین تک آگاہی پہنچانے  یا ڈیجیٹل لٹریسی کو عام کرنے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اُردو یا انگریزی زبانوں میں تیار کی گئی وڈیوز میں علاقائی زبانوں کےضمنی عنوان/ترجمے (Captions/Subtitles) کی شمولیت پر زوردیا جائے اور آگاہی وتربیتی مقاصد کے حصول میں کثیر السانی (Multilingual) پہلو کونظر انداز نہ کیا جائے۔

دراصل ڈیجیٹل لٹریسی بنیادی تعلیم و تربیت سے علیحدہ نہیں ۔ بنیادی تعلیم یعنی اُردومیں لکھنا پڑھنا  اور انگریزی زبان سے واقفیت ڈیجیٹل لٹریسی کا  لازمی حصّہ ہے کیوں کہ کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کے  ذریعے تعلیم ، روزگار اور آگاہی اُسی صورت حاصل کی جاسکتی ہے جب کمپیوٹر کی زبان کو سمجھاجائے۔ اکنامک سروے (2020-21) کے مطابق پاکستان میں تعلیم کی شرح 59.13 فیصد ہے یعنی ملک کی 40 فیصد عوام  بنیادی تعلیم بھی حاصل نہیں کررہی اور ایسی صورت میں ڈیجیٹل لٹریسی کو عام کرنا مزید مشکل ہے کیوں کہ جس طرح پاکستان میں خواتین کے لیے بنیادی تعلیم کو عام کرنا ایک مسئلہ ہے اور اب تک خواتین کی ایک بڑی تعداد اسکول سے دور ہے، اسی طرح ڈیجیٹل لٹریسی کے مواقعے  بھی محدود  ہیں۔

خیال رہے کہ ڈیجیٹل لٹریسی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم محض کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرلیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود وسائل کو قابل رسائی بنایا جائے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو فرد بھی ڈیجیٹل ڈیوائسز(جیسے اسمارٹ فونز، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ)  استعمال کرے ، اسے سمجھ کر استعمال کرسکے۔

جب ہم خواتین کی تعلیم و تربیت یا ڈیجیٹل لٹریسی کی بات کرتے ہیں تب عام طور پر  یہ مدِ نظر نہیں رکھتے کہ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ایسی بہت سی خواتین موجود ہیں جن تک جدت اور تعلیم کا پیغام تو پہنچ  گیا ہے لیکن وہ یہ نہیں جان سکی ہیں کہ اس جدت کو اپنا نا کیسے ہے؟ وہ جدید دنیا میں اپنی شناخت اور اپنے مقام کو ثابت کرنے کی تگ و دو میں مصروفِ عمل ہیں اور محض لسانی بندشوں کی وجہ سے تربیت کے مواقعوں سے محروم ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں  جواپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری قومی یا بین الاقوامی زبان کی محدود واقفیت رکھتی ہیں،یا جو  کسی بھی دوسری زبان میں کی گئی گفتگو کوسُن کر تو سمجھ سکتی ہیں لیکن پڑھنے سے محروم ہیں یا معلومات کوسمجھنے میں  دقت کا سامنا کرتی ہیں۔ایسی خواتین جب حصول ِعلم یا کسی ہنر کی تربیت حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا رُخ کرتی ہیں تو اپنی زبان میں مطلوبہ تربیتی مواد نہ ہونے کی وجہ سے ہمت ہار بیٹھتی ہیں۔ ان خواتین کو اپنے بنیادی حقوق کی آگاہی پہنچانے اور انٹرنیٹ کو محفوظ انداز میں استعمال کرنے کی تربیت دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا تربیتی مواد تیار کیا جائے جوعلاقائی اہمیت کے لحاظ سے  کم از کم دو اہم مقامی زبانوں کےسب ٹائٹل یا کیپشن  پر مبنی ہو ۔ ملٹی میڈیا کنٹینٹ (Multimedia Content) جیسے ویڈیو رپورٹس،  تربیتی مواد، سوشل میڈیا آگاہی پیغامات کے ساتھ بھی ان کو استعمال کرناچاہیے تاکہ وہ تمام خواتین جو اپنی محنت اور لگن سےانٹرنیٹ تک پہنچ رہی ہیں، ان کو کم از کم واپس لوٹنا نہ پڑے اور وہ اپنی زبان میں اپنی پسند اور سہولت کے مطابق اپنی  تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکیں۔وڈیو رپورٹس میں کیپشن کی سہولت سُننے کی محدود صلاحیت  کے حامل افراد  کے لیے بھی مددگار ہوتی ہے۔ ایسے افرادجو قوت سماعت کی مشکلات کے پیش نظر پڑھ کر پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی امداد اور آسانی کے لیے بھی یہ نہایت ضروری ہے کہ ایسا ملٹی میڈیا کنٹینٹ تیارکیا جائے جو ان کے لیے قابل استعمال اور کار آمد ہو۔

سب ٹائٹل  اورکیپشن کیاہے؟

سب ٹائٹل  اورکیپشن کو ملٹی میڈیا کنٹینٹ میں موثر انداز میں  استعمال کرنے کے لیے ان کے درمیان فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔سب ٹائٹل وڈیو میں بولی جانے والی زبان کو الفاظ میں تبدیل کردیتے ہیں ۔یہ عام طور پر زبان و بیان کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں، خاص طور پر بین الاقوامی زبان کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہےلیکن وہ افراد جو سُننےکی محدود صلاحیت  کے حامل ہیں  یا جن کی قوت سماعت متاثر ہے،  ان کے لیے کیپشن کا استعمال زیادہ  کارآمد ہے۔ کیپشن کی مدد سے وہ نہ صرف بولی جانے والی زبان کو ذیلی عنوان کی صورت میں دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں بلکہ وہ آوازیں(Audio Cues)جو وڈیو کا خاص حصّہ ہوتی ہیں ان کو بھی واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

ان کے ساتھ ساتھ وائس اوور اور  ٹرانسکرپٹ بھی اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ٹرانسکرپٹ کسی بھی آڈیو یا وڈیو پیغام کا تحریری مسودہ  ہوتا ہے، جسے وڈیو کے ساتھ درج کیا جاسکتا ہے تاکہ وڈیو دیکھنے والے وڈیو دیکھنے اور سُننے کے بعد اسے پڑھ کر سمجھ سکیں۔ وائس اوور تکنیک،وڈیو پروڈکشن  کا خاص حصّہ ہے  اور کسی مخصوص زبان میں پیغام نشر کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اُردو یا انگریزی کنٹینٹ کے ساتھ سب ٹائٹل یا کیپشن کیوں اہم ہے؟

کیا آپ  بھی کبھی کبھی اُردو یا انگریزی آڈیو یا وڈیو سُنتے اور دیکھتے ہوئے بے اختیار کلوز کیپشن کااستعمال کرتی ہیں؟ غالباً ہم  سب ہی بہتر وضاحت کے لیے اس سہولت کو کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر کسی نہ کسی طرح استعمال کرتے ہیں۔ بات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے یہ نہایت اہم امر ہے۔وہ خواتین جو جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت حاصل کرنا چاہتی ہیں، ان کو اس سہولت کے ذریعے اپنی مدد آپ کے تحت تربیت حاصل کرنے کا موقع حاصل ہوگا اور وہ نہ صرف یہ آگاہی حاصل کرسکیں گی کہ انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہے بلکہ یہ بھی سمجھ سکیں گی کہ بنیادی معلومات کے ساتھ بھی انٹرنیٹ کو فعال انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سب ٹائٹل یا  کیپشن سے کیا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس کی  مدد سے ڈیجیٹل لٹریسی کو عام کرنا آسان ہوگا؟

تربیتی مواد میں مختلف زبانوں پر مشتمل سب ٹائٹل ، ضمنی عنوان/ ترجمے وغیرہ  شامل کر کے کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فون کو محفوظ انداز میں استعمال کرنے کی تجاویز کو  بہتر انداز میں سمجھایا جاسکتا ہے۔سائبر ہراسگی سے محفوظ رکھنے اوراس حوالے سے ضروری اقدامات کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے تربیتی اصول و ضوابط کی علاقائی زبانوں میں بہتر ترویج کی جاسکتی ہے۔ خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت کے حوالے سے تیار کے جانے والے آگاہی/ امدادی پیغامات کو بھی مختلف زبانوں میں تیار کر کے ایک وسیع طبقے تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ 

یہ فیصلہ کون کرے گا کون کون سی علاقائی زبانوں میں سب ٹائٹل یا کیپشن شامل کیا جائے؟

یہ ایک مشکل سوال ہے کہ پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 74 سے زائد زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے چند صوبائی اور علاقائی سطح پر دوسری بولیوں اور زبانوں کی نسبت زیادہ معروف اور وسیع تر رسائی کی حامل ہیں ۔ اس حوالے سے یوزر پولنگ کی مدد لی جاسکتی ہے  یا  کنٹینٹ کو علاقائی اہمیت کی مناسبت سے منتخب کیا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے کنٹینٹ کرییٹرز (Content Creators)کیا کہتے ہیں؟

وڈیو جرنلسٹ اور رپورٹرز کے لیے تعلیم و تربیت اور آگاہی سے متعلق کنٹینٹ  کو ایک سے زائد زبانوں میں تیار کرنا دشوار اور  پیچیدہ عمل ہے  اور سہولیات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے  مشکل  حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وائس آف امریکہ کی رپورٹر اور معروف صحافی سدرہ ڈار سے اس سلسلے میں بات ہوئی۔انھوں نے کہا،’’یہ کام آسان نہیں مگر ممکن ہے۔‘‘ وہ خود بھی ایسی وڈیوز بناتی رہتی ہیں جن میں کیپشن اور سب ٹائٹل شامل کیے جاتے ہیں۔ان کی رپورٹس عام طور پر اُردو  میں ہوتی ہیں جس کے ساتھ انگریزی  یا کسی علاقائی زبان کا وائس اوور یا سب ٹائٹل شامل کردیا جاتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ کنٹینٹ کرییٹرز خود ہی یہ بہتر فاصلہ کرسکتےہیں کہ کون سی وڈیو کے ساتھ کس زبان کےسب ٹائٹلز یا کیپشن یا وائس اوورزیادہ کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں۔یہ وڈیو کی نوعیت پرمنحصر ہے۔

انھوں نے کہا،’’سب سے اہم یہ ہے کہ وڈیو رپورٹ یا پیغام کا موضوع کیا ہے۔ عام طور پر سب ٹائٹل اس لیے رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ  افراد  جن کی قوتِ سماعت متاثر ہے، وہ بھی یہ سمجھ سکیں کہ وڈیو میں موجود فرد کیا کہہ رہا ہے۔ علاقائی زبانوں کی اہمیت بھی اسی طرح ہے۔ اگر کسی مخصوص کنٹینٹ کے ناظرین کی بڑی تعداد علاقائی زبان بولنے والی ہے تو یہ بہتر ہے کہ اس مخصوص علاقائی زبان کو وڈیو میں کسی نہ کسی شکل میں شامل کردیا جائے۔‘‘ 

’’جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں اس حوالے سے کئی طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں،   جیسے اگر آپ نے سائبر بُلیینگ پر ایک  وڈیو تیار کی ہے جو اُردو  میں ہے تو آپ اُس کے نیچے انگریزی زبان کا سب ٹائٹل شامل کر دیجیے۔ جب وڈیو اُردو میں ہے تو بہت ممکن ہے کہ پیغام سب تک پہنچ جائے گا اورانگریزی زبان میں اس پیغام کی مزید وضاحت ہوجائے گی۔ یا پھر آپ اسی وڈیو کے چار ورژن بنا لیں جیسے ایک پیغام اُردو میں ہے، ایک انگریزی میں  ہے، ایک سندھی میں ہے، ایک براہوی میں ہے یا پشتو زبان میں ہے۔تو اس میں چار مختلف لوگ ہوں گے جو ان زبانوں پر عبور رکھتے ہوں گے۔یا پھر تیسرا طریقہ یہ ہے کہ وڈیو اُردو میں ہی ہو، لیکن سب ٹائٹل یا وائس اوورکسی علاقائی زبان کا شامل کردیا جائے۔ یہ ایک چیلنج ہے۔چاہے آپ ایک ہی پیغام کی چار وڈیوز بنائیں یا ایک ہی  وڈیو کے ساتھ مختلف سب ٹائٹل شامل کریں۔‘‘

اس سلسلے میں انڈیپنڈینٹ اُردو کی نامہ نگار رمیشا علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ابھی حال ہی میں، میں نے ایک رپورٹ تیاری کی تھی جو خواتین کو سیلف ڈیفنس کی تربیت فراہم کرنے کے حوالے سے تھی۔ اس وڈیو کے لیے میری دلی خواہش رہی کہ یہ صرف اُردو زبان میں نہ ہو بلکہ دوسری زبانوں میں بھی اس معلومات کو عام کیا جائے تاکہ وہ لوگ اس سے مدد لے سکیں جو اُردو نہیں سمجھتے یا  اُردو زبان پڑھ کر نہیں سمجھ  سکتے لیکن صرف اُردو زبان کے سب ٹائٹل کے ساتھ وڈیو رپورٹ تیار کرنا ہی ایک طویل مرحلہ ہے  اور اگر ہم یہ فیصلہ کر  بھی لیں کہ محض آگاہی یا تربیت کے لیے چند مخصوص ملٹی میڈیا رپورٹس کے علاقائی ورژن تیار کرنے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کرے گا کون؟ اس سلسلے میں کوئی پلیٹ فارم دستیاب نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کنٹینٹ کرییٹرز کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔زیادہ تر ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز اُردو یا انگریزی سے وابستہ ہیں اور انھی زبانوں میں ملٹی میڈیا کنٹینٹ کی تیاری پر توجہ دیتے ہیں، ان کے پاس وہ وسائل  دستیاب نہیں جو اس مقصد کے لیے استعمال کیے جاسکیں۔‘‘

رمیشا نے بتایا کہ ملٹی میڈیا کنٹینٹ کی تیاری ایک صبر آزما کام ہے، جس میں کنٹینٹ کرییٹر یا  پروڈیو سر کے ساتھ ساتھ وڈیو ایڈیٹر کی محنت بھی شامل ہوتی ہے۔’’  اُردو یا انگریزی میں تیار کیے گئے ملٹی میڈیا کنٹینٹ کو صرف کسی ایک علاقائی زبان  میں ڈھالنے  کے لیے ہی ہمیں کئی افراد یا ماہرین کی مدد درکار ہوگی۔ جیسے جس زبان میں کیپشن یا سب ٹائٹل تیار کرنا ہے، اس زبان کے ماہرین،  جو وائس اوور کر سکیں، وڈیو اسکرپٹ کو اُردو یا انگریزی میں سُن کر اس کا علاقائی زبان میں ترجمہ کرسکیں اور  یہ بھی دیکھ سکیں کہ علاقائی زبان میں تیار کیا گیا ترجمہ، وائس اوور یا سب ٹائٹل وغیرہ معیاری ا ور دُرست ہے۔ ڈیجیٹل لٹریسی کے لیے علاقائی زبانوں میں سب ٹائٹل یا کیپشن کی تیاری اور ترویج  یقیناً بہت ضروری ہے۔ یہی ایک ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم پاکستان کے کونے کونے میں کوئی بھی پیغام پہنچا سکتے ہیں لیکن چوں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں اور اس حوالے سے  کسی ادارے کی سرپرستی  بھی حاصل نہیں،اس لیے یہ کام ناقابلِ عمل لگتا ہے ۔‘‘

انڈیپینڈینٹ اُردُو کے وڈیو ایڈیٹر ظہیر الدین بابر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مثبت تکنیکی  پہلوؤں کو اُجاگر کیا اور بتایا کہ تکنیکی طور پر جیسے کسی ایک زبان میں  کیپشن یا سب ٹائٹل تیار کیا جاتا ہے ویسے ہی کسی علاقائی زبان میں بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے کہا، ’’اس کام کو انجام دینا ناممکن نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر تو لوگ پہلے ہی مختلف علاقائی زبانوں کو رابطے کے لیے  استعمال کر رہے ہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ان علاقائی زبانوں کے ’کی بورڈز‘موجود ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہم عام طور پر جن سافٹ ویئرز پر کام کر تے ہیں جیسے Adobe, FCP وہ ہمیں اُردو فونٹ میں بھی محدود رسائی فراہم  کرتے ہیں۔  یہی حال گوگل ، فیس بک اور یوٹیوب کا بھی ہے لیکن یہ مسئلہ بھی فوٹو ایڈیٹنگ سافٹ ویئرز کی مدد سے حل کیا جا سکتا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں  کہ اضافی محنت کی ضروت ہوگی لیکن یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘

ڈیجیٹل لٹریسی کےلیے سب ٹائٹل یا کیپشن کو استعمال کرنا، ایک مشکل کام ہے  لیکن ہمیں اس کی اہمیت ، اس کی طاقت کو پہچاننا ہوگا۔یہ نہایت ضروری ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اُن معاون ذرائع کو تعلیم عام کرنے  یا  آگاہی کی ترویج کے لیے استعمال کیا جائے، جن کو آج ہر زبان میں منفرد نوعیت کے ملٹی میڈیا کنٹینٹ کے ساتھ باقاعدگی سے استعمال کیا جاتا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی ہم سب کا مستقبل ہے، اس لیے بنیادی تعلیم کے ساتھ ڈیجیٹل لٹریسی کوعام کرنے اور اس کے حوالے سے آگاہی پہنچانے کی ذمہ داری بھی ہم سب کی ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھا کر ہی ہمارا انٹرنیٹ ہمارا بنے گا۔  اس لیے اپنے پیغام کو سب کے لیے قابل فہم اور قابل رسائی بنانےکی کوشش کیجیے اور یہ بات یاد رکھیے کہ ہم اپنی آواز ہر طبقے اور ہر کونے تک پہنچا کر ہی اس فرق کو ختم کرسکتے ہیں جو ہمارے درمیان ڈیجیٹل فاصلے کا سبب ہے۔