کال آؤٹ کلچر ۔۔۔ صدیوں کی چپ کا خاتمہ !

تنزیلہ مظہر

خواتین کو گھر کے اندر اور باہر کی دنیا میں مردوں کے معاشرے سے ایسے چیلنجز کا سامنا رہتا ہے جن کے سامنے اگر وہ کمزور پڑ جائیں تو ان کے لئے زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں اگر کسی خاتون کو راہ چلتے کسی نا خوشگوار واقعے سے دو چار ہونا پڑے تو اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا کہ گھر میں کسی کو اس حوالے سے اعتمادمیں  لینا چاہئے کہ نہیں کافی مشکل ہوتا ہے ۔ عموماً خاندان کا ردعمل خود متاثرہ خاتون کے خلاف ہو جاتاہے باپ، بھائی ، چچا اور شوہر خاتون کو کہتے ہیں کہ اسے باہر جانے کی ضرورت نہیں ۔ ملازمت یا تو تبدیل کرا لی جاتی ہے یا چھڑوا دی جاتی ہے ۔ اگر مقامی علاقے سے ہی کسی مرد یا مردوں کے گروہ کی جانب سے خاتون کو نازیبا کلمات سننے کو ملیں یا بعض اوقات پیچھا کرنے اور راستہ روکنے کے واقعات بھی پیش آئیں تو گھر میں بات پہنچنے کے بعد گھر کے مرد خاص کر بھائیوں وغیرہ کی طرف سے جا کر ان لڑکوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ مگر اس ساری صورتحال میں جو نقصان ہوتا تھا وہ خواتین کا ہوتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ  لوگ اس لڑائی اور جھگڑے کی وجہ بتانے سے گھبراتے ہیں عام خیال یہ ہی ہے کہ اگر لوگوں کو یہ بتایا جاۓ گھر کی کسی خاتون کو تنگ کرنے کی وجہ سے ان لوگوں کی پٹائی کی گئی ہے تو اس سےگھر کی خاندان کی اور بالخصوص عورت کی بدنامی ہو جاۓ گی۔ اس شرمندگی سے جڑے غلط تصور کی وجہ سے خواتین ہمیشہ دباؤ کا شکار رہیں ۔ اکثر صورت حال ایسی بھی دیکھنے کو ملتی ہیں کہ خواتین کو کسی نا کسی طرح ذمہ دار  ٹھہرایا جاتا ہے کبھی یہ کہ گھر سے باہر جانے کا حلیہ ٹھیک نہیں اور کبھی خاتون کے کردار پر شکوک کا اظہار  کہ اس نے ہی ایسا کچھ کیا ہوگا کہ کوئی آدمی اسُ کا پیچھا کرنے لگ گیا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یوں یہ سارا مسئلہ خواتین کے لئے دوہرا دباؤ بنا رہا ایک تو باہر ہراسگی کا شکار بنو اور گھر میں بدمزگی کے ساتھ ساتھ بد اعتمادی کا شکار بھی بنو۔

خواتین کی طرف سے چپ نے ان لوگوں کو ان عوامل کو مظبوط کیا جو خواتین کو چھیڑنا تنگ کرنا ہتک آمیز حملوں اور جملوں کا شکار کرنا اپنے لئے فخر کی بات سمجھتے ہیں ۔

لیکن آخر کب تک ؟ دنیا کے ساتھ ساتھ اب پاکستان مین بھی حالات بدل رہے ہیں بالخصوص سوشل میڈیا کے بڑھتے اثرو رسوخ کے بعد خواتین کو اپنے دکھ، ذہنی دباؤ اور تجربات کو دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کا موقع ملا ہے ۔ سب سے بڑھ کر اہم یہ ہے کہ وہ لوگ جو خواتین کو دیکھ کر نا زیبا حرکات کرنے لگتے ہیں ان کا نام اور شکل اب سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جاتی ہے ۔ اس کال آؤٹ کلچر پر بھی لوگوں کا ردعمل مختلفُ ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ اس سےمعاشرے میں برائی کا خاتمہ ممکن نہیں نا ہی اس طرح کسی کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔ میرا خیال اس میں ذرا مختلف ہے ایک تو یہ کہ کال آؤٹ کلچر اس گندگی کو دنیا کے سامنے لا رہا ہے جس پر ہمیشہ معاشرے کے دوغلے معیار پردہ ڈالتے رہے دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمیشہ ایسے واقعات میں خواتین جو متاثرین ہوتی ہیں وہ مشکلات میں گھرے رہتی ہیں مثلاً جنسی زیادتی کا شکار بننے والی خواتین کے بارے میں اگر لوگوں کو علم ہو تو اس کا مستقبل اور زندگی ہر وقت سوالات اور شکوک میں گھرے رہتی ہے اس کے برعکس وہ جو اس زیادتی کا مجرم ہوتا ہے اس کا نام شکل کسی کو نہیں بتائی جاتی ایک طرح سے اس کا تحفظ کیا جاتا ہے ۔ یہ منافقت میری سمجھ میں نہیں آتی کہ متاثرین کو تحفظ دینے کے بجاۓ آپ جرم کرنے والے کو تحفظ فراہم کریں ۔

کال آؤٹ کلچر سے جو برائی کا مرتکب ہے وہ بھی معاشرے میں ایکسپوز ہو رہا ہے ۔ اس کا مقصد کسی حد تک تو اصلاح ہو سکتا ہے ۔ مگر میری راۓ میں اس سے خواتین کے خلاف جرائم کرنے والوں کو ایک تو ایکسپوز ہونے کا خوف ہو گا دوسرا وہ خواتین کو ڈرانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ جتنے بھی واقعات خواتین کی طرف سے اب تک سوشل میڈیا پر آۓ ہیں ان سے ایک بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ اب خواتین کو یہ کہہ کر چپ نہیں کرایا جا سکتا کہ اگر وہ بولیں تو ان کی بدنامی ہو گی ۔ اور نہ ہی انہیں سامنے آ کر اپنی عزت کے لئے لڑنے سے روکنا اب ممکن ہے ۔ یہ بلاشبہ ایک اہم پیش رفت ہے اور مجھے پوری امید ہے کہ کال آؤٹ کلچر سے معاشرے میں خواتین کے لئے ذیادہ تحفظ کی یقین دہانی ہوگی ۔