بلوچستان جو سنگلاخ پہاڑوں اور قدرتی حسن سے مالا مال صوبہ ہے یہاںکے قوم پرست رہنماﺅں کا صوبے کی سیاست میں ہمیشہ سے ہی اہم کردار رہا ہے تاہم صوبے کی خواتین ماضی میں پسماندگی کے اندھیروں میں ہی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں ماضی میں بلوچستان کے ہونے والے انتخابات کے دوران کبھی خواتین ووٹرز کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے محروم رکھا گیا تو کبھی انہیں ذات پات قوم قبیلہ کے نام پسماندہ رکھا گیا مگر آج صورتحال میں یکسر تبدیلی آچکی ہے 2013ءکے عام انتخابات میں صوبے میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آﺅٹ 28فیصد سے بڑھ کر34فیصد تک پہنچا جبکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان اسمبلی میں خاتون اسپیکر راحیلہ حمید درانی کے تقرر نے یہاں خواتین کو پسماندگی کرھنے کی سوچ کو تبدیل کیا گیا راحیلہ حمید درانی کے بطور اسپیکر تقرر کو جہاںبلوچستان سمیت پورے ملک میں سراہا گیا تو وہیں صوبے کی خواتین جو زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں انکی بھی حوصلہ افزائی ہوئی راحیلہ حمید درانی نے نہ صرف بطور اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے کئی معاملات کو بخوبی انجام دیا بلکہ سماجی امور میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس سے پڑھی لکھی خواتین کے دل میں سیاست اور سماجی خدمات جیسے شعبوں میں حصہ لینے کی خواہش مزید بیدار ہوئی اس کے علاوہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سال2018-19کا صوبائی بجٹ پہلی خاتون مشیر خزانہ ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے پیش کیا جو یقینا خواتین کو خودمختار کرنے سے متعلق سوچ کی ترجمانی کرتا ہے راحیلہ حمید درانی کی طرح ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی کو بھی بے حد پذیرائی حاصل ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں میں خواتین کی موجودگی کو لازمی قرار دیتے ہوئے کوٹے کو پانچ فیصد سے بڑھا کر 10فیصد کر دیا گیا اس کے علاوہ قومی و صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں سے ہٹ کر حیران کن طورپر عام انتخابات کیلئے جنرل نشستوں پر بھی خواتین کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جو اس سے قبل بلوچستان میں پہلے کبھی نہیں ہواسال2018ءکے عام انتخابات کیلئے بھی خواتین کی بڑی تعداد نے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے بڑھ چڑھ کر اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اس حوالے سے جب مختلف اداروں اور سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ صوبہ بلوچستان میں خواتین ووٹرز کی تعداد اٹھارہ لاکھ تیرہ ہزار کے قریب ہے لیکن صوبے کے بیشتر اضلاع میں کہیں بلوچ پختون روایات تو کہیں مذہب کے نام پر انکے ووٹ ڈالنے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہیں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے علاوہ اندرون صوبہ بلوچ اور پشتون علاقوں میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کے عمل کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے مردوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر کی خواتین کو انتخابی عمل سے دور رکھیں اور انتہائی مجبوری کے عمل میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے باہر نکالا جاتا ہے لیکن ووٹ ڈالنے میں انکی کوئی چوائیس نہیں ہوتی ھے اور وہ صرف ان امیدواروں کو ووٹ ڈال سکتی ہیں جو انکے مرد انکو بتاتے ہیں بلوچستان میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے اور خصوصا خواتین میں تو نہ ہونے کے برابر ہیں جسکے باعث انہیں انتخابات کے حوالے سے کسی قسم کا شعور نہیں ہوتا ہے اور وہ صرف انتخابی نشانات کو ہی پہچان پاتی ہیں اور اپنے مردوں کے کہنے پر ووٹ کرتیہے نہ صرف اندرون صوبہ بلکہ شہری علاقوں میں بھی خواتین کو اپنے من پسند امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کا کوئی حق ھے انہوں نے ہر صورت اس امیدوار کو ووٹ کرنا ہوتا ہے جسکا فیصلہ انکے گھر کے مرد کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں عام انتخابات میں جنرل نشستوں پر خواتین امیدوار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں کامیابی تو دور کی بات ھے تاہم صدر مشرف کے دور میں اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشتوں میں اضافے کے باعث کچھ خواتین اسمبلیوں میں نظر آرہی ہیں لیکن وہ بھی اپنی پارٹیوں کے سامنے بے بس ہوتی ہیں انکے ترقیاتی فنڈز انکے پارلمانی لیڈرز استعال کرتے ہیں اپنی پارٹی کی مرضی کے بغیر وہ کوئی مسئلہ اسمبلی میں نہیں اٹھا سکتی ہیں قانون سازی میں انکا کوئی کردار نہیں ہوتا انکا کام صرف تنخواہ وصول کرنا اور بطور رکن اسمبلی مراعات کو انجوائے کرنا ہوتا ہے حد تو یہ ہے الیکشن کیمشن نے شرط رکھی تھی کہ دہ ہزار اٹھارہ میں ہونے والے عام انتخابات میں جنرل نشستوں پر دس فیصد نشستیں خواتین کو دی جائیں گئیں لیکن سیاسی مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی جانب سے حقوق نسواں کے تحفظ کے تمام دعووں کے باجود چند کے ایک سوا کسی نے بھی خواتین امیدواروں کو ٹکٹس نہیں دیے واضح رہے کہ ماضی کے تمام انتخابات میں بلوچستان میں خواتین کا ووٹ ڈالنے کا تناسب انتہائی کم رہا ہے جسکی وجہ آج بھی بلوچستان کے سردار اور نواب ہیں جو اپنے مقابلے میں کسی مرد کو برداشت نہیں کرتے وہ خواتین کو کس طرح برداشت کرسکتے ہیں لیکن ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین صوبوں میں ہوتا ہے کہ جہاں روایتی اور معاشرتی طور پر مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل تھی مگر گذشتہ ایک دھائی سے ایک واضح تبدیلی نمایاں ہو رہی ہے۔ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد بلوچستان میں جائزحقوق کیلئے اٹھنے والی مختلف تحریکوں میں شامل ہو کر معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ مگرموجودہ صورتحال اس کے برعکس ہے کہ بین الاقوامی این جی اوز اور حکومتی اقدامات سے خواتین کے معاشرتی حالات بتدریج تبدیل ہو رہے ہیں مگر دیگر قبائلی معاشروں کی طرح بلوچی خواتین کا استحصال اگر ختم نہیں ہوا تو کم ضرور ہوا ہے۔ پاکستان بھر میں صوبہ بلوچستان میں بالغوں معیارِ تعلیم 39فیصد ہے جبکہ خواتین میں 18فیصد ہے۔ یہاں ایک طرف تو ا?بادی میں اضافے نے معاشرتی طور پر عورت کو اہمیت کے لحاظ سے مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے جس کی بنیادی وجہ قبائلی طرزِ زندگی اور طویل عرصے سے جاری غیر متوازن حکومتی و سیاسی پالیسیاں ہیں جس سے سب سے زیادہ متاثر بلوچ عورت ہوئی ہے کہ وہ تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے تاحال محروم ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق غربت و فاقوں کے ساتھ ساتھ بے تحاشا بچوں کی پیدائش کی وجہ سے شادی شدہ عورتوں میں بیماریاں اور اموات زیادہ ہیں۔ بلوچستان میں 7300افراد پر ایک ڈاکٹر ہے جس میں بھی 100میں صرف 15خواتین ڈاکٹرز موجود ہیں جو کہ سب شہری علاقوں میں ہیں۔ دیہی علاقے جو شہر سے خاصے دور ہیں اتنی زیادہ شرح اموات و بیماریاں ہیں۔ یہاں قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ قبائلی رسوم و رواج اور روایتی شرم و حیا کی وجہ سے خواتین اپنے جنسی و تولیدی مسائل سے نابلد ہیں یا مرد ڈاکٹر اور دیگر طبی اسٹاف سے بات کرنے سے فطرتی طور پر گریز ں ہیں۔یہ بات تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اپنی پچاس فیصد ا?بادی کو معاشری سرگرمیوں سے الگ رکھ کر سو فیصد ترقی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ خواتین کی روزہ مرہ سرگرمیوں میں شمولیت ناگزیر ہے۔ جب تک کہ انہیں مردوں کے شانہ بشانہ سماجی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کے مواقع میسر نہیں ہوں گے تو وہ معاشرہ یا قبیلہ کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ جہاں تک بلوچ خواتین کا تعلق ہے چونکہ ان کی اکثریت وہاں کی روایتی قبائلی طرز زندگی اپنائے ہوئے ہے تو اس کامعمول کا کردار بظاہر گھر داری تک محدود ہے مگر یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس طرح کی طرزِ معاشرت میں قبیلے اور گروہ کا ہر بچہ گھر پر ماں کے ہاتھوں ہی پل کر جواں ہوتا ہے۔ بلوچ قبائلی زندگی کی اصل محافظ و معاون بلوچ عورت ہی ہے۔ چاہے بلوچی زبان ہو، روایات یا حکایات ہوں، دستکاری، مقامی رقص اور موسیقی ہو یا رسوم و رواج۔ یہ سب اس بلوچ عورت ہی کے مرہونِ منت ہیں جو ابھی تک قائم و دائم ہیں۔میڈیا کی وجہ سے ایک واضح تبدیلی نظر آرہی ہے اور قبائلی رسوم و رواج کے ساتھ تعلیم خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم میں بھی واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق میڈیکل کالج میں لڑکیوں کے داخلہ میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے نتیجے میں خواتین معالجین میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف کھیل کے میدان میں ہر 11میں سے 6لڑکیاں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی سیاسی حالات میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلی نے قبائلی خواتین کو بھی سیاست اور حکومت میں شامل ہو کر ملکی ترقی کے دھارے میں شامل کر لیا ہے۔ایک اور اہم اور قابل تذکرہ بات ان بلوچ خواتین کا اپنے مسائل سے واقفیت اور ان کے ممکنہ حل کیلئے این جی اوز میں شامل ہو کر بھرپور سماجی کام کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر بلوچ عورت چاہے تو جلد ہی بلوچستان میں موجود احساسِ مظلومیت میں کمی لا سکتی ہے اور وہ صوبائی طور پر ایک بار پھر سے پاکستان کی ترقی میں اپنا اہم ترین کردار ادا کر سکتی ہے تاہم ہمیں چاہےے ہو گا کہ بڑے بڑے اداروں اور ایوانوں میں بیٹھی خواتین تعلیم سے متعلق اپنی سوچ کو نچلی سطح پر بھی منتقل کریں تاکہ گاﺅں دیہاتوں اور قصبوں میں رہنے والی خواتین بھی اپنے فیصلے خود کرنے کی اہل ہو سکیں میں سمجھتی ہوں کہ اس میں ایک بہت اہم رول سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ ادا کر سکتا ہے جو گھر بیٹھی خواتین کے لئے نہ صرف سیکھنے اور منتقل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے بھی صوبے میں اہم مقام حاصل کرنے والی خواتین سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے دور دراز علاقوں تک اپنی بات اور پیغام پہنچاسکتی ہیں۔

Author: Aqsa Mir
Aqsa is an emerging journalist from Quetta, associated with Dunya news as reporter since a year. She has a keen interest in women rights issues and focuses on these topics for reporting. She has done her graduation from University of Balochistan in Mass Communication in 2016. Aqsa can be reached at @AqsaMir9