خواتین صحافیوں کی آن لائن ہراسانی (سائبر بُلنگ)

Illustration by Mehak Tahir

By Mahnoor Qureshi

یہ عورت دو نمبر ہے۔ لڑکی ہاتھ سے نکل گئی ہے، آوارہ عورت ہے،  یہ جملے ہم میں سے شاید ہی کسی خاتون نے اپنے یا اپنے اردگرد کی خواتین کے بارے میں نہ سنے ہوں۔ پہلے رشتہ دار، ہمسائے اور دوست احباب کھل کر مخالفت اور کردار کشی کر لیتے تھے مگر اب یہ حق ہر کسی کے پاس آ گیا ہے۔ یوں تو انٹرنیٹ نے سب کو ہر کسی کی معلومات تک رسائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ آواز اٹھانے کی طاقت دی ہے لیکن خواتین کو ہر دوسری چیز کی طرح اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ جس طرح آج تک عورت کو یہ نہیں پتا چل سکا کہ اس کا اپنا گھر کون سا ہے اسی طرح آج کی عورت کا انٹرنیت کے بارے میں بھی یہی سوال ہے کہ کہاں ہے ’ہمارا انٹرنیٹ‘ جہاں اپنا نظریہ پیش کرنے پر ہماری کردار کشی نہیں ہوتی؟

مسئلہ انٹرنیٹ یا کسی اور ٹیکنالوجی کا نہیں بلکہ اس کا استعمال کرنے والوں کا ہے جن کا ہمیشہ سے مقصد خواتین کی ہر طرح کی آزادی چھیننا ہے۔ زندگی کے ہر میدان کی طرح انٹرنیٹ پر بھی خواتین کو بےشمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر اپنی تصویر شیئر کر دیں اور وہ پبلک ہو تو لوگ اس کو غلط طرح استعمال کرنا اور اس کے متعلق نازیبا باتیں کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ عورت کو صنف نازک نہ صرف سمجھا جاتا ہے  بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ معاشرہ عورت کو کسی اور روپ میں برداشت ہی نہیں کر سکتا۔

اپنے حقوق کے لیے بولنے یا ظلم کو ظلم کہنے والی خواتین کو معاشرہ اکثر اچھے الفاظ سے نہیں پکارتا، انہیں عموماً موم بتی مافیا یا سستی اور لنڈے کی لبرلز کہا جاتا ہے۔ ویسے تو خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی اور اگر وہ نوکری کر بھی لیں تو انہیں easy to approach and easy to use  سمجھا جاتا ہے۔ نوکریوں میں بھی کچھ ایسے شعبہ جات ہیں جن میں خواتین کو عام خواتین سے زیادہ طاقت ور سمجھا جاتا ہے، صحافت کا شمار انہی شعبوں میں کیا جاتا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے میں جس طرح خواتین صحافیوں کو جیسے آن لائن تضحیک اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ قابلِ فکر ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بےجا تنقید کرنے والوں میں نہ صرف عوام بلکہ مرد صحافی اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔

ہم ٹی وی سے وابستہ صحافی شفا یوسفزئی کا کہنا ہے کہ سائبر بُلیینگ کا نشانہ بننے کے بعد وہ مزید’اوپن ٹو ہراسمنٹ‘ ہو گئیں۔ اس عمل کے دوران نہ صرف ان کی ذاتیات پر حملے کئے گئے بلکہ ان کی کردار  کشی بھی کی گئی، کئی افراد نے ان کی زندگی کے ان کمزور لمحات سے مکمل فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے ان کو ضرورت سے زیادہ ’توجہ‘ دینے کی کوشش کی۔ کئی لوگ ایسے بھی تھے جو انہیں ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے سو انہوں نے اس بدنیتی پر مبنی کیمپئین پر یقین کرتے ہوئے ان کے بارے میں کی گئی جھوٹی باتوں کو سچ سمجھا جس کی وجہ سے وہ ذاتی اور پیشہ ورانہ طور پر بہت متاثر ہوئیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس آن لائن بُلیینگ نے نہ صرف انہیں بلکہ ان کی فیملی کو بھی شدید جذباتی اور ذہنی دھچکا پہنچایا اسی وجہ سے وہ اس guilt میں بھی مبتلا ہو گئیں کہ وہ اپنے خاندان کے لیے تکلیف اور پریشانی کا باعث بن رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سائبر بُلیینگ کے باعث ان کی فیملی ان کی سکیورٹی کے حوالے سے اتنی فکرمند ہو گئی کہ اس کیمپیئن کے بعد انہیں ان کے والد نے دفتر لانا اور لے جانا شروع کر دیا تھا۔

شفا یوسفزئی کا کہنا تھا کہ زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ نہ صرف مرد صحافیوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ متعدد خواتین صحافی ان کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے آگے نہیں بڑھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ میری اور ان صحافیوں کی آئیڈیالوجی میں فرق ہے، میرا ماننا ہے کہ جس آئیڈیالوجی کو میں بہتر سمجھ کر اس کی ترویج کرتی ہوں وہ ’پاکستان کے حق میں ہے‘ جسے عمران خان یا اسٹیبلشمنٹ کے حق میں کہہ کر میری مخالفت کی جاتی ہے۔ اگر وہ ایسا سمجھتی بھی ہیں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ یہ ان کا جمہوری حق ہے کہ وہ جس نظریے کو بہتر سمجھیں اس کا ساتھ دیں مگر ایک خاتون صحافی کے خلاف اس قسم کی کیمپیئن چلنا اور ساتھی صحافیوں کا اس کے حق میں آواز تک نہ اٹھانا یقیناً میرے لیے باعث تکلیف تھا۔

مایہ ناز صحافی عاصمہ شیرازی کو بھی ملکی صورت حال پر تجزیہ کرنے کی وجہ سے آن لان ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی بدترین کردار کشی کرنے کی کوشش کی گئی۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف #حجاب_میں_لپٹی_طوائف سمیت دیگر ٹوئٹر ٹرینڈز کئی روز تک چلتے رہے۔ ان کے خلاف چلائے گئے ٹوئٹر ٹرینڈز کا انتہا پسندانہ پہلو یہ رہا کہ ان کے نظریات پر تنقید کے بجائے ان پر ذاتی حملوں کے ساتھ ساتھ رکیک الزامات بھی عائد کیے گئے اور انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے۔

https://publish.twitter.com/?query=https%3A%2F%2Ftwitter.com%2FUsman_Insafian_%2Fstatus%2F1451978262918348810&widget=Tweet

 یہ سلسلہ صرف عوام کی جانب سے ٹویٹس تک محدود نہیں رہا بلکہ حکومتی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی ان کے خلاف ٹویٹ شیئر کی گئی جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ ’کیا حج کرپشن سکینڈل آپ کے لیے بڑا مسئلہ نہیں ہے؟ اور مفرور نواز شریف اور مریم نواز کا کیا، جن کا کہنا تھا کہ میری لندن میں تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہے؟

سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈرز کے ساتھ ساتھ حکومتی نمائندوں نے بھی عاصمہ شیرازی پر جانبدارانہ صحافت کا الزام عائد کیا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے عاصمہ شیرازی کے خلاف باقاعدہ ایک پریس کانفرنس کی جس میں ان پر ن لیگ سے قربت کا الزام لگایا اور ان ٹرینڈز کو ’عوامی ردعمل‘ قرار دیا گیا۔

خبر رساں ادارے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں عاصمہ شیرازی کے خلاف چلائے گئے ایک ٹویٹر ٹرینڈ کا تجزیہ کیا گیا جس میں سامنے آیا کہ ایک مخصوص ہیش ٹیگ پر کل ایک لاکھ 11 ہزار ٹویٹس کی گئیں جنہیں شیئر کرنے میں غیرمعمولی قسم کا اتار چڑھاؤ رہا۔ اس ٹرینڈ میں قریباً 83 فیصد ٹویٹس ایسے اکاؤنٹس سے کی گئیں جو بظاہر مرد حضرات کے تھے، اس ٹرینڈ میں شامل ٹاپ تین اکاؤنٹس میں وزیر اعظم عمران خان کی تصاویر لگائی گئی تھیں۔ ان اکاؤنٹس سے بظاہر یہی تاثر مل رہا تھا کہ یہ ٹویٹس حکمران جماعت پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹس سے کی گئی ہیں۔

اس حوالے سے جب صحافی عاصمہ شیرازی سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ کہیں نہ کہیں میں ذہنی طور پر اس آن لائن ہراسانی کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھی کیونکہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ میرے خلاف ٹویٹر ٹرینڈ چلا ہو، ہاں یہ ضرور پہلی مرتبہ ہوا کہ چھ وزرا نے بھی میرے خلاف ٹویٹس کیں تاہم اس سب سے میرے کام پر کوئی فرق نہیں پڑا، اس کی دو وجوہات تھیں، ایک تو یہ کہ اب میں اس آن لائن ہراسانی کی عادی ہو چکی ہوں، دوسرا یہ کہ بہت سے لوگوں نے میرا ساتھ بھی دیا جس کی وجہ سے میرا حوصلہ بہت بڑھا۔ ذاتی زندگی پر اس سب سے فرق ضرور پڑا کیونکہ مجھ سے وابستہ کئی افراد ان ٹرینڈز کی وجہ سے بہت پریشان ہوئے اور جواب دینے کی پوزیشن میں نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے مجھے ٹوئٹر پر ان فالو ہی کر دیا تاکہ ان کی نظر سے ایسی کوئی چیز گزر ہی نہ سکے۔ پی ٹی آئی کے حکومت میں آنے سے قبل ہی جب انہوں نے میاں نواز شریف کا انٹرویو کیا تو انہیں شدید ترین آن لائن ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد انہوں نے خود کو ذہنی طور پر اس سب کے لیے تیار کر لیا۔

عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے صحافیوں خاص طور پر خواتین صحافیوں کے ساتھ روا رکھے گئے رویے سے میں بالکل بھی مطمئن نہیں ہوں، جس طرح سے صحافیوں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، کردار کشی کی جاتی ہے اور ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں وہ انتہائی افسوس ناک ہیں۔

مرد صحافیوں کے رویے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ جس طرح مرد صحافیوں کو آگے بڑھ کر خواتین صحافیوں کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے تھی انہوں نے اس موثر انداز میں آواز نہیں اٹھائی۔ پہلے تو مرد صحافی ہمارے حق میں بولے ہی نہیں اور جب بولے تو بہت لگے لپٹے انداز میں انہوں نے آواز اٹھائی۔ چند کے سوا کسی نے تنقید کا نشانہ بھی نہیں بنایا تاہم کئی نامور صحافیوں نے بہت سپورٹ بھی کیا، تاہم جو اکا دکا بہت نامور صحافی ہیں ان کی جانب سے خواتین کا اتنا ساتھ نہیں دیا گیا جتنا دیا جانا چاہیے تھا۔

ایف آئی اےسے وابستہ آصف اقبال چوہدری جو کہ سائبر کرائم وونگ سے بھی منسلک رہے ہیں، نے ایف آئی اے کے قوانین سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ تب تک از خود نوٹس نہیں لیتا جب تک ریاست یا ریاستی اداروں کے خلاف سائبر کرائم کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔ کسی فرد کے خلاف سائبر کرائم کی شکایت جب تک مذکورہ شخص خود نہیں کرے گا تب تک ادارہ کارروائی نہیں کر سکتا۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ایف آئی اے صحافیوں کے مقدمات پر ایکشن لیتا ہے جس کی مثال شفا یوسفزئی کا کیس ہے۔ انہوں نے ایف آئی اے میں شکایت کا اندراج کروایا جس پر باقاعدہ کارروائی عمل میں لائی گئی، کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں گیا جہاں تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ معاملہ ذاتی اعناد پر مبنی تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراسانی سے بچنے کے لیے شکایت کا اندراج لازمی کروانا چاہیے تاکہ مجرمان کو  واقعی سزا دی جا سکے۔

ماہر نفسیات آفرین اطہر سے جب خواتین کی آئن لائن ہراسانی کے اثرات کے متعلق  تو ان کا کہنا ہےکہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سائبر بُلنگ کا رجحان بہت بڑھتا جا رہا ہے، اگر اسے صنفی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بنانے سے منسلک کرکے دیکھیں تو یہ پتہ چلے گا کہ یہ ایک عام پایا جانے والا رجحان بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’سائبر بُلیینگ کی وجہ سے متاثرہ فرد کی نہ صرف کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بھی اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس سب سے خواتین صحافیوں کی ذہنی و جسمانی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ ڈیپریشن اور انگزائٹی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ 

انہوں نے مزید بتایا کہ اگر کوئی خاتون صحافی کوئی ایسی خبر کور کرتی ہے جو کسی کے نظریات سے تصادم رکھتی ہو تو بہت کم وقت میں بہت زیادہ اکاؤنٹس انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اکثر ان کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں جس سے نہ صرف ان کی ذاتی زندگی بلکہ پیشہ ورانہ زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے ادارے بہت ہی کم ہیں جو کہ خواتین صحافیوں کو سائیکو- سوشل سپورٹ فراہم کرتے ہوں۔

آفرین اطہر کا کہنا تھا کہ ویسے تو عام حالات میں بھی مگر ایسی صورت حال میں یہ بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ ڈیجیٹل سکیورٹی، جسمانی حفاظت اور سائیکو – سوشل سکیورٹی کے بنیادی اصولوں پر عمل کیا جائے تاکہ کسی بھی مشکل صورت حال سے نمٹا جا سکے۔

خواتین صحافیوں کی سائبر بُلیینگ کا اگر تجزیہ کریں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ متاثرہ افراد کے لیے تو خطرناک ہے ہی ساتھ ہی ساتھ معاشرے کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے معاشرے میں ایک انتہا پسندانہ سوچ پرورش پا رہی ہے اور قانون کے شکنجے میں نہ آنے کا زعم بڑی سے بڑی قانون شکنی کی جانب مائل کرتا ہے۔ آن لائن سائبر بُلیینگ میں ایک اور چیز جس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے وہ متاثرہ شخص یا اس سے وابستہ افراد کا فزیکلی موجود نہ ہونا ہے سو یہ تاثر عام ہے کہ کسی کے خلاف جتنی بھی نازیبا زبان استعمال کر لو یا کچھ بھی کہہ لو کوئی کچھ بھی نہیں کر پائے گا کیونکہ جب ایک ’آن لائن ہجوم‘ اس طرح کی نامناسب حرکات کرتا ہے تو یقیناً سب کو فرداً فرداً سزا نہیں دی جاتی۔ اس سب کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ سائبر بُلیینگ کرنے والے سیاسی کارکنان کی پارٹی لیڈرشپ جو کہ اکثر حکمران جماعت سے ہی تعلق رکھتی ہے، اپنے کارکنوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرتی بلکہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ ان کا دفاع کر رہی ہوتی ہے، اس سے بھی سائبر کرائمز میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح اس فیلڈ میں خود کو منوانے والی مایہ ناز صحافیوں کے حق میں ساتھی مرد صحافیوں نے فرنٹ لائن پر کھڑے ہو کہ ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اگر دیا بھی تو مصلحت کے لبادے میں لپیٹ کر، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ  خواتین صحافیوں کے خلاف کیے جانے والے اس جرم کی جڑیں کتنی مضبوط ہیں اور آئندہ کے لیے اس فیلڈ میں آنے والی خواتین کتنی vulnerable ہیں۔ ان سب عوامل کے مل جانے سے نہ صرف خواتین صحافی عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہیں بلکہ آزادی اظہارِ رائے پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔